پچھلے ہفتے مزار قائد پر متعین ریٹائرڈ فوجیوں پر مشتمل سکیورٹی گارڈز کی ہوس کا نشانہ بننے والی رضیہ نے کورٹ میں اصل مجرم کو پہچان کر ہمارے صدر پرویز مشرف کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ پرویز مشرف جو اس سے پہلے ریپ ہونے والی عورتوں کے بارے میں انتہائی گھٹیا الفاظ استعمال کرچکے ہیں اب دیکھ لیں کس طرح ان کے دور حکومت میں عورتیں لٹ رہی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رضیہ کا مقدمہ دہشت گردی کی کورٹ میں اسی طرح لگتا جس طرح صدر پرویز مشرف پر حملہ کرنے والے مجرموں کا لگا تھا یا پھر اس مقدمے کو اس طرح نپٹایا جاتا جس طرح سو بچوں کے قاتل جاوید کا مقدمہ نمٹایا گیا۔ جاوید نے جیل میں ہی جرم کی نشاندہی کے چند ماہ بعد ہی مبینہ خود کشی کرلی تھی۔

رضیہ جو اپنے خاندان والوں کے ساتھ مزار قائد کےمیوزیم میں پاکستان کی تخلیق کے شواہد دیکھنے آئی اپنے ہی لوگوں کی ہوس کا شکار ہوگئی۔ دو دن تک اس کی عزت مزار قائد کے سٹور میں لٹتی رہی اور سکیورٹی ایجنسی کے مالک ریٹائرڈ میجر کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ پولیس کی بے حسی کی انتہا دیکھئے کہ جائے واردات کا پتہ معلوم ہونے کے باوجود وہ عورت کو برآمد نہ کراسکی۔ مجرموں کی نادانی کی انتہا دیکھئے کہ لڑکی کی عزت کو خاک میں ملا کر اسے صبح صبح مزار قائد سے ہی باہر نکال دیا۔ کہتے ہیں کہ جرم زیادہ دیر تک چھپ نہیں سکتا اور مجرم کوئی نہ کوئی نشان اپنے جرم کا پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ مجرموں نے رضیہ کو زندہ سلامت چھوڑا تاکہ وہ ہوش میں آکر ان کو شناخت کرسکے۔

ہم اس زیادتی پر صدر پرویز مشرف اور سندھ کے گورنر سے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے رضیہ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے ک سفارش کرتے ہیں۔  اس کیس کو میڈیا پر زیربحث لانے کی التجا کرتے ہیں تاکہ باقی لوگ عبرت حاصل کریں اور ایسے جرائم کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔

اچھا یہی ہے کہ رضیہ کیساتھ زیادتی کرنے والوں کے مقدمے کا فیصلہ ہفتے کے اندر اندر کردیا جائے اور پھر مجرموں کو سرعام پھانسی دے دی جائے۔ شاید اسی طرح کے گناہوں کی روک تھام کیلیے اسلام نے انتہائی سخت سزائیں مقرر کی ہیں جنہیں یورپ اسلام مخالف پروپیگنڈے کی وجہ سے ظالمانہ سزائیں قرار دیتا ہے۔