جب سے موجودہ انتخابات ہوئے ہیں ہر کسی نے یہی کوشش کی ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بنے۔ اسی افراتفری میں حزب اختلاف تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ بلوچستان اسمبلی میں صرف ایک شخص حزب اختلاف میں ہے۔ اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ ق کے اراکین مجبوراً حزب اختلاف کی سیٹوں پر بیٹھے ہیں اور حکومت میں شامل ہونے کے موقعے کی تلاش میں ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ق کا فارورڈ بلاک اکثریت حاصل کرچکا ہے اور حزب اختلاف کا پارلیمانی لیڈر بھی انہی کے گروپ سے ہوگا۔ قومی اسمبلی نے ملکی تاریخ میں پہلی بار وزیراعظم کو سو فیصد ووٹ دے کر منتخب کیا۔ اس کے بعد صرف مسلم لیگ کے ارکان ہی حزب اختلاف کے بینچوں پر بیٹھیں گے جن کی تعداد بہت کم ہے۔

پچھلے کچھ روز سے میڈیا کے سیاسی ٹاک شوز میں بھی تمام کے تمام شرکاء حزب اقتدار کا کردار ہی ادا کرتے رہے ہیں اور اب تک حکومت کا  تنقیدی  جائزہ لینے کیلیے سوائے چوہدریوں کے میڈیا کو کوئی اور بااثر سیاستدان ڈھونڈنے میں دقت کا سامنا رہا ہے۔ ہر کوئی پہلی حکومت کی بدعملیوں کی نشاندہی کے بعد سیاسی مفاہمت کی بات کرنے میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ کسی نے موجودہ حکومت کے موجودہ لائحہ عمل پر کوئی تنقید نہیں کی۔ حالانکہ موجودہ حکومت نے بھی عوامی مسائل یعنی مہنگائی، چوری ڈاکے اور لوڈشیڈنگ ختم کرنےکیلیے کوئی ہنگامی اقدامات نہیں اٹھائے اور ابھی تک وہ بھی دہشت گردی کے خاتمے کا ہی رونا روتی رہی ہے۔

ہوسکتا ہے حزب اختلاف اگلے چند ماہ میں بالکل ہی غائب ہو جاتی اگر ایم کیو ایم کے مذاکرات پیپلز پارٹي کیساتھ فیل نہ ہو جاتے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایم کیو ایم نے بھی مجبوراً حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد اب امید ہو چلی ہے کہ موجودہ حکومت کو لگام ڈالنے کیلیے حزب اختلاف اپنا کردار بھرپور ادا کرے گی اور حکومت کے غلط اقدامات کی نشاندہی کرکے اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کرے گی۔

 سابقہ حکومت کے ہارے ہوئے سیاستدان حزب اختلاف کی اہمیت سے نہ جانے کیوں واقف نہیں ہیں اور پانچ سال حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد دوبارہ اقتدار میں آنے کیلیے ان کیلیے چند سال انتظار کرنا مشکل بنا ہوا ہے۔ حالانکہ عقلمند سیاستدان ہمیشہ ہارنے کے بعد حزب اختلاف میں بیٹھ کر حکومت کو لگامے ڈالنے پر ترجیح دیتے ہیں تاکہ اگلے انتخابات میں وہ موجودہ حکومت کو ہرا کر دوبارہ اقتدار میں آسکیں۔ جس ملک میں حزب اختلاف طاقتور نہ ہو وہاں پر جمہوری آمریت مسلط ہو جاتی ہے۔ سیاسی حکمران اپنی من مرضی کرنے لگتے ہیں اور انہیں روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اگر حزب اختلاف موجود ہو تو پھر حکومت کیلیے قومی مفاد کے خلاف اقتدامات اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے۔ انڈیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس کی حزب اختلاف اور موجودہ حکومت میں شامل ایک پارٹی کی مخالفت کی وجہ سے ابھی تک امریکہ کیساتھ ایٹمی معاہدہ نہیں ہوسکا۔ اگر اسی طرح کا کردار ہماری حزب اختلاف بھی ادا کرنے کا ارادہ کرلے تو پھر حکومت کیلیے عوام مخالف پالیسیاں بنانا ناممکن ہو جائے گا۔

امید ہے اب ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق ثابت قدم رہتے ہوئے حزب اختلاف میں بیھٹی رہیں گی اور حکومت کے قومی مفاہمت کے جھانسے میں دوبارہ نہیں آئیں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ان دونوں پارٹیوں کو حزب اختلاف میں بیٹھنے کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے مگر انہیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر رات کے بعد دن نکلتا ہے اور دن کے انتظار میں رات تو کاٹنی ہی پڑے گی۔