آجکل ہر طرف ملکی سیاست میں سازشوں کے چرچے ہیں۔ کسی کا خیال ہے صدارتی محل سازشیں کر رہا ہے اور کوئی اسٹیبلشمنٹ کو سازشوں کا ذمہ دار ٹھرا رہا ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان جان بوجھ کر اختلافات بڑھائے جارہے ہیں تاکہ فوج دوبارہ حکومت پر قبضہ کرلے۔ کسی کی نظر میں چوہدری برادران اور ان کے حواری سازشوں کے جال بچھا رہے ہیں۔ ملک کے بڑے بڑے تجزیہ نگار جن میں حامد میر، انصارعباسی، روئیداد خان، ڈاکٹرشاہد مسعود، طاہر عباس، عبدالقادرحسن شامل ہیں بار بار ان سازشوں سے خبردار کررہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سازشوں کا نشانہ بننے والے ان سازشیوں کو پہچان پائیں گے یا نہیں۔

صدرمشرف کی بھرپور کوشش ہے کہ جج بحال نہ ہوں اور پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن سے الگ ہو کر مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم سے ملکر حکومت بنالے۔ مسلم  لیگ نواز کی کوشش ہے کہ وہ ججوں کے بحران کو کیش کرانے میں ایک منٹ کی تاخیر نہ کرے۔ آصف زرداری نے اس دفعہ جس طرح ملک کی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلنے کی طرح ڈالی ہے اس میں بھی کوئی راز پنہاں ہے جو وقت آنے پر آشکارا ہوگا۔ ہوسکتا ہے اس طرح وہ تمام پارٹیوں کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہوں کہ اگر تم الگ ہوگئے تو تمہارا نعم البدل ہمارے پاس موجود ہے۔

 ایم کیو ایم چاہتی ہے کہ وہ قومی مفاہمت کی آڑ میں حکومت میں شامل ہوجائے کیونکہ ایم کیو ایم کی نظر میں قومی مفاہمت صرف اور صرف حکومت میں شراکت سے ہی ہوسکتی ہے۔ پتہ نہیں ایم کیو کی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آرہی کہ قومی مفاہمت حزب اختلاف میں بھی بیٹھ کر بھی ہوسکتی ہے۔ وہ اس طرح کہ وہ پیپلزپارٹی کو سندھ میں حکومت کرنے دے اور اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔ خود ایم کیو ایم حزب اختلاف میں بیٹھ کر پیپلزپارٹی کی حکومت کی نگرانی کرے۔ اسے اچھے کاموں میں سپورٹ کرے اور برے کاموں کی مخالفت کرکے اسے روکنے کی کوشش کرے۔

اسی طرح آصف زرداری کو کیا ضرورت تھی کہ وہ دو چار سیٹوں والی جماعتوں کو بھی قومی حکومت میں شامل کرتے۔ انہیں حزب اختلاف میں بیٹھنے دیتے تاکہ کوئی تو حکومت کے روزانہ کے معمولات کو تنقیدی نظر سے بھی دیکھتا۔ اب بلوچستان کی طرح جہاں حزب اختلاف کا اکلوتا ممبر ہے قومی اسمبلی اوردوسری صوبائی حکومتوں میں بھی حزب اختلاف نام کی چیز نظر نہیں آرہی۔ یہی وجہ ہے کہ آج صوبہ بلوچستان میں 35 وزراء نے حلف اٹھایا ہے۔  بلوچستان جیسے سب سے چھوڑے صوبے میں صوبارئی وزراء کی تعداد نہ صرف باقی صوبوں سے زیادہ ہے بلکہ وفاقی وزراء سے بھی زیادہ ہے۔ اب اگر اکثریتی پارٹی کو پش پشت ڈال کر حکومت بنائی جائے گی تو پھر اس طرح کے ریکارڈ تو قائم ہوں گے ہی۔

آصف زرداری اور نواز شریف کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ متحد رہیں اور ججوں کی بحالی کے ایشو پر آپس میں اختلافات پیدا نہ ہونے دیں۔ آصف زرداری صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ حد سے زیادہ سمارٹ بننے کی کوشش نہ کریں اور ایک وقت میں ایک آدھ بڑی جماعت کو ہی اپنا اتحادی بنائیں۔ ایم کیو ایم جو پچھلے پانچ سال حکومت میں رہی اب اسے بھی اپوزیشن میں بیٹھ کر ملک کی خدمت کرنی چاہیے۔ صدرمشرف کیلیے تو بہتری یہی تھا کہ وہ اب صدارتی وردی بھی اتار دیتے اور آرمی ہاؤس خود ہی خالی کردیتے۔ ان کے حواریوں کو بھی چاہیے کہ وہ ایک آمر کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بجائے اب ملک میں جمہوریت کی مضبوطی کی حمایت کریں۔

پتہ نہیں کب ان سازشوں سے جان چھوٹے گی اور کب بڑی بڑي سیاسی پارٹیاں عوامی مسائل کی طرف توجہ دیں گی۔ کب آپا دھاپی ترک کی جائے گی اور کب اصلی قومی مفاہمت میں شامل ہوکر تمام سیاسی پارٹیاں عوام کی خدمت کیلیے کمر کس لیں گی۔ کب آٹے اور بجلی کا بحران ختم ہو گا اور کب بجلی کے بحران کی وجہ سے ہماری ڈوبتی ہوئی صنعت دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگی۔ کب غیر پاکستان کے اندر سازشوں کو ہوا دینے کیلیے اپنے دورے اور میل ملاقاتیں بند کریں گے اور کب پاکستان کے جغادری سیاستدانوں کو غیروں کی سازشوں کی سمجھ آئے گی۔