اس وقت معزولی ججوں کی بحالی کے میچ میں جو ٹيمیں حصہ لے رہی ہیں ان میں ایک ٹیم پاکستانی عوام کی نمائندگی کررہی ہے اور دوسری بیرونی جمہوری طاقتوں کی۔ عوامی ٹیم میں سول سوسائٹي کے ارکان، وکلاء، اے پی ڈی ایم شامل ہیں۔ بیرونی جمہوری طاقتوں یعنی بی جے ٹی کی ٹیم میں پیپلز پارٹي، ایم کیو ایم، جمیعت علمائے اسلام، مسلم لیگ ق اور صدر مشرف شامل ہیں۔ اس ٹيم میں مسلم لیگ ن ریزرو کھلاڑی کے طور پر شامل ہے۔

نومارچ کو جب یہ میچ شروع ہوا تو عوامی ٹيم کے گولچی چیف جسٹس افتخار نے دوسری ٹیم کے فارورڈ اور کپتان صدر پرویز مشرف کی ہٹ اپنے پیڈوں پر روک کر بہت داد وصول کی ۔ کپتان پرویز مشرف نے اس کو اپنی تضحیک سمجھا اور امپائر کی ملی بھگت سے عوامی ٹیم کیخلاف ایک گول کردیا یعنی چیف جسٹس کو معزول کردیا۔ اس بے ایمانی کو تماشائیوں نے برداشت نہیں کیا اور وہ میدان میں داخل ہوگیے یعنی مظاہرے شروع کردیے۔

 جب میچ دوبارہ شروع ہوا تو بی جے ٹی کے لیفٹ آؤٹ ایم کیو ایم  نے دھونس دھاندلی سے کراچی کے فسادات کی شکل میں ایک اور گول کردیا جس کی کپتان پرویز مشرف نے کھلے عام تعریف کی ۔ اس زیادتی پر تماشائیوں نے لیفٹ آؤٹ ایم کیو ایم کی خوب ہوٹنگ کی۔  عوامی ٹیم نے اپنے تماشائیوں کی حمایت کی وجہ سے ایک گول بنایا یعنی چیف جسٹس افتخار محمد کو سپریم کورٹ نے بحال کردیا۔  اس طرح عوامی ٹيم نے گمشدہ افراد کی بازیابی، پرویز مشرف کی صدارت کیلیے اہلیت اور کراچی کے فسادات کے ازخود نوٹس لینے جیسے  تین گول بی جے ٹی کیخلاف کر دیے۔

جب بی جے ٹی کو ہار یقنی نظر آنے لگی تو اس نے ایمپائر یعنی وردی کے زور پر عوامی ٹیم کے کئی کھلاڑی میچ سے خارج کرادیے یعنی پی سی او کے تحت دوبارہ حلف نہ لینے والے ججوں کو فارغ کردیا۔ اس طرح کمزور عوامی ٹيم کیخلاف بی جے ٹی نے دو گول کردیے یعنی جنرل مشرف دوبارہ پانچ سال کیلیے صدر مقرر ہوگئے اور انہوں نے انتخابات میں مسلم لیگ ق کی کھل کر حمایت شروع کردی۔ اس طرح ہاف ٹائم میں میچ چار چار گول سے برابر تھا۔

ہاف ٹائم کے بعد یعنی انتخابات کے بعد بی جے ٹی کی ٹیم میں مسلم لیگ ریزرو کھلاڑی کے طور پر شامل ہوگئی اور ٹيم نے تماشائیوں کا اعتماد بحال کرنے کیلیے دھونس دھاندلی ختم کر دی یعنی ججوں کو رہا کردیا، انہیں بحال کرنے کا تیس دن کا وعدہ کیا اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح عوامی ٹيم نے ججوں کی بحالی کیلییے تیس دن کے وعدے کا گول کرکے میچ میں ایک گول کی سبقت حاصل کرلی۔ میچ کو برابر کرنے کیلیے بی جے ٹی کی ٹيم کے کھلاڑیوں فضل الرحمان، اسفند یار ولی، الطاف حسین، آصف زرداری اور پرویز مشرف نے اپنے کھیل میں تال میل پیدا کیا اور عوامی ٹیم پر حملے شروع کردیے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ بی جے ٹي کی ٹيم میچ ہارنا نہیں چاہتی یعنی ججوں کو اپنی اصل حالت میں بحال نہیں کرنا چاہتی لیکن وہ ججوں کو بحال کرکے یعنی ایک گول کرکے میچ برابر بھی کرنا چاہتی ہے۔ اب بی جے ٹي چاہتی ہے کہ جج بحال بھی ہوجائیں مگر ان سے کچھ اختیارات چھین لیے جائیں یعنی نہ وہ سوموٹو ایکشن  لے سکیں اور نہ صدر مشرف کے صدارتی انتخاب کا مقدمہ سن سکیں۔ بی جے ٹی یہ بھی چاہتی ہے کہ عوامی ٹيم کا گولچی میچ ختم ہونے سے پہلے ہی کھیل سے باہر چلا جائے یعنی اس کی مدت ملازمت کم کردی جائے تاکہ میچ آسانی سے برابر کیا جاسکے۔ بی جے ٹي کا یہ بھی ارادہ ہے کہ موجودہ ججوں کو بھی قائم رکھا جائے تاکہ بحال ہونے والے جج اقلیت میں چلے جائیں۔ عوامی ٹيم چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ دو نومبر والی پوزیشن میں چلی جائے یعنی معزول جج بھی بحال ہوجائیں اور نئے ججوں کو بھی گھر بھیج دیا جائے۔

سابقہ میچوں کا ریکارڈ یہی بتاتا ہے کہ بی جے ٹي کی ٹیم جیت جائے گی کیونکہ اس کی پشت پر بیرونی جمہوری طاقتوں کی بہرین کوچنگ ہے اور انہوں نےکھلاڑیوں کے کنکٹریکٹ دوبارہ سائن کرنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔ اس حرص اور لالچ کی وجہ سے بی جے ٹي کی ٹيم کے سارے کھلاڑی میچ ہر حال میں برابر کرنا چاہتے ہیں اور انہیں تماشائیوں کی ناراضگی کی بھی پرواہ نہیں ہے۔

 دوسری طرف عوامی ٹيم بھرپور کوشش کرے گی کہ وہ تماشائیوں کی طاقت کے بل بوتے پر بی جے ٹي کو میچ برابر نہ کرنےدے۔

 اس میچ کا فیصلہ بارہ مئی کو ہونے جارہا ہے۔ اب دیکھیے فتح کس کی ہوتی ہے۔