دل چاہتا ہے اپنا بچپن واپس مل جائے اور ہم پھر سے دنیا کے بکھیڑوں سے آزاد اپنی ہی دنیا میں مگن ہوجائیں۔ صبح کی نماز کے بعد دوستوں کیساتھ نہر پر لمبی سیر کیلیے نکل پڑیں۔ سیر کے بعد واپس گھر آکر ماں کے ہاتھوں کا پکا پراٹھا مکھن اور لسی کیساتھ کھائیں اور پھر سکول چلے جائیں۔

ہمیں یاد ہے ہمارا سکول دو میل کے فاصلے پر تھا اور ہم پیدل سکول جایا کرتے تھے۔ پیدل چلنے سے پہلے ہم دوستوں نے لطیف نائی کے پھٹے پر پہلے اکٹھے ہوا کرنا اور پھر گب شپ لگاتے اور راستے میں لگی فصلوں کیساتھ اٹھکھیلیاں کرتے سکول پہنچ جانا۔ ہم لوگ اکثر سکول آدھ پون گھنٹہ پہلے پہنچ جایا کرتے تھے۔ سکول لگنے سے پہلے سکول کے پھلوں کی باغ کی سیر کرتے اور نیچے گرے ہوئے پھل چکھتے۔ کبھی کبھار جب مالی نہ ہوتا تو درختوں سے امرود اور آم توڑ بھی لیا کرتے۔ اس کے بعد ہم لوگ پکڑن پکڑائی کھیلتے اور سکول کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں گھس کر پکڑنے والے کو جھانسا دیا کرتے۔

اس وقت ہمارا سکول پرائیویٹ تھا اور انتظامیہ نے اسے پھولوں کی سیج کر طرح سجا رکھا تھا۔ تین مالی ہروقت پھولوں اور پودوں کی کیاریوں کی دیکھ بھال پر معمور تھے۔ ہر کمرے کے آگے بنے باغیچے کو روزانہ سکول کے ٹیوب ویل سے پانی سینچا جاتا۔ سکول پہنچتے ہی موتیے اور گلاب کے پھولوں کی خوشبو دل کو مسحور کردیتی۔ ہیڈماسٹر کے کمرے کے سامنے انگور کی بیلوں کے سائے میں بنی راہداری اپنی مثال آپ تھی۔ گرمیوں میں جب اس راہداری سے گزرنے کا اتفاق ہوتا تو ٹھنڈک سے جسم تازہ ہوجاتا۔ ہمیں یاد ہے ایک بار راہداری سے گزرتے ہوئے مالی نے ہمیں انگور کا گچھا توڑتے ہوئے پکڑ لیا پھر کیا تھا ہیڈماسٹر صاحب نے وہ پٹائی کی کہ ہمیں نانی یاد آگئی۔

پھر سکول کی گھنٹی بجتی، ہم لوگ کلاسوں میں چلے جاتے، ٹيچر حاضری لگانے کے بعد ہمیں قطاروں میں اسمبلی کیلیے سکول کے ہاکی گراؤنڈ میں لے جاتے۔ سب سے پہلے تلاوت، پھر علامہ اقبال کی نظم” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری”، اس کے بعد اعلانات اور آخر میں سکول کے بینڈ کی دھن پر گراؤنڈ کا چکر لگا کر ہم لوگ کلاسوں میں چلے جاتے۔ ہر پیریڈ آدھے گھنٹے کا ہوتا اور سکول کی پیتل کی گھنٹی پر لکڑی کا ہتھوڑا مار کر نئے پیریڈ کا آغاز کیا جاتا۔ اس وقت ہم گھنٹي بجانے والے کو رشک کی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھے۔

ہم نے سکول کے پی ٹی شو گروپ کی نمائندگی بھی کی۔ جب سکول کے جلسوں میں بینڈ کی دھنوں پر پی ٹي شو کا مظاہرہ کرتے تو مزہ آجاتا۔ پی ٹی شو گروپ کا ایک لیڈر سب سے آگے ہوتا باقی چالیس طلبا چار لائنوں میں کھڑے ہوجاتے۔ ہر لائن کا اپنا لباس ہوتا اور ہم لوگ جب گراؤنڈ میں آگے پیچھے داخل ہو کر مختلف ترتیبوں میں پی ٹی کرتے تو حاضرین دل کھول کر داد دیتے۔ پی ٹی شو کے بعد بینڈ اپنے فن کا مظاہرہ کرتا اور اس وقت حاضرین خوش ہو کرتالیاں بجاتے جب بینڈ ماسٹر اپنی چھڑي سے مختلف کرتب دکھاتا۔

تفریح کی گھنٹی جب بجتی تو ہم لوگوں کے چہروں پر رونق آجاتی۔ ہم اپنے دوستوں کیساتھ سکول کے پاس ہی ایک ٹیوب ویل کے ساتھ لگے درختوں کے سائے میں بیٹھ جاتے۔ گھر سے لایا ہوا کھانا کھاتے اور سگریٹ پینے والے سگریٹ پی لیتے۔ اس وقت ایک سگریٹ دو پیسے کا اور دو سگریٹ تین پیسے کے ملا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ہمارے دوست ہم سے ایک پیسہ ادھار لے لیتے تاکہ دو سگریٹ خرید سکیں۔ اس طرح جب ہم سکول سے گریجویٹ ہوئے تو دوستوں کی طرف ہمارا ادھار پچاس پیسے ہو چکا تھا۔

چھٹي کی گھنٹی کا سب سے زیادہ مزہ آيا کرتا تھا۔ گھنٹی بجتے ہی ہر کلاس سے ہم لوگ ایسی دوڑ لگاتے جیسے پنجرے سے جانور آزاد کردیے گئے ہوں۔ پھر ایک ہزار طلبا کا قافلہ مین گیٹ سے باہر ایسے نکلتا جیسے کوئی سیاسی جماعت کا جلوس جارہا ہو۔ جب بھٹو نے ایوب خان کیخلاف بغاوت کی اور جلوس نکالنے شروع کیے تو ایک دن دوسرے سکول کے طلبا ہمارے سکول جلوس لے کر آگئے۔ مجبورا انتظامیہ کو چھٹی کرنی پڑی اور ہم ایوب کتا کے نعرے لگاتے ہوئے سارے شہر کا چکر لگا کر گھر پہنچے۔

ہم چونکہ ہاکی ٹیم کے بھی ممبر تھے اسلیے سہ پہر کو دوبارہ سکول آکر کوچ کی نگرانی ميں ہاکی کی پریکٹس کیا کرتے۔ اس وقت کرکٹ، باسکٹ بال، کبڈی اور فٹ بال کی بھی پریکٹس ساتھ ساتھ ہوا کرتی تھی۔ کھیلوں کا سامان سکول مہیا کیا کرتا جو بعد میں نیلام کردیا جاتا۔ سکولوں کے ٹورنامنٹس میں ٹیموں کے مقابلے بڑے زور شور سے ہوا کرتے تھے۔ سب سے زیادہ مزہ کبڈی کے میچوں کا آیا کرتا تھا۔ ہمارے ایک ہسٹری کے ٹیچر جو سابق فوجی تھے جب کبڈی کے میچ کی کمنڑی کیا کرتے تو مزہ آ جاتا۔ کبڈی میں جب ایک کھلاڑی دوسرے کو ڈھاک مارتا تو حاضرین خوب تالیاں بجایا کرتے۔

سکول کےجلسوں میں تقریری مقابلے اپنی مثال آپ تھے۔ تلاوت کے بعد نعت، تقریر، قوالی کے مقابلے دیکھنے کے لائق ہوتے تھے۔ خاص طور پر قوال مختلف قوالوں کی نقل کرکے محفل لوٹ لیا کرتے تھے۔ ہر جلسے میں نامی گرامی لوگوں کو بلایا جاتا، ٹینٹ لگائے جاتے اور بوائے سکاؤٹ کی وردی میں ملبوس طلبا جلسے کا انتظام سنبھالے بہت اچھے لگا کرتے۔

ہمارے سکول میں ایک ڈسپنسری بھی ہوا کرتی تھی جس کے ڈاکٹرہومیوپیتھک علاج کیا کرتے تھے۔ کبھی کبھار جب ہوم ورک نہ کیا ہوتا یا پھر کسی اور وجہ سے استاد سے مار کا ڈر ہوتا تو ہم لوگ ڈسپنسری چلے جایا کرتے۔ ڈسپنسری میں رش ہونے کی وجہ سے پورا پیریڈ ادھر ہی گزر جاتا۔ آخر میں ڈاکٹر صاحب ہمیں میٹھی گولیاں دیا کرتے جو ہم ڈسپنسری سے نکلتے ہی ایک ہی باری میں نگل جاتے۔ کبھی کبھار پی ٹي ماسٹر راؤنڈ لگاتے لگاتے ڈسپنسری کی طرف نکل آتے۔ انہیں دیکھ کر مریضوں کی جو دوڑ لگتی وہ دیکھنے کے قابل ہوا کرتی تھی۔

پی ٹي ماسٹر سکول میں سب سے زیادہ ڈسپلن والے ہوتے تھے۔ وہ سکول کے ارد گرڈ چکر لگا کر کلاسوں سے بھاگے ہوئے طلبا کو پکڑتے اور ادھر ہی ان کی مرمت شروع کردیتے۔ کبھی کبھار بگھوڑوں کو چھٹي کے وقت سکول کے گیٹ پر مرغا بنا دیا جاتا تاکہ باقی طلبا عبرت حاصل کریں۔

پچھلے دنوں جب ہم دوبارہ اپنے سابقہ سکول ایک دوست استاد سے ملنے گئے تو سرکاری سکول کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ وہاں اب نہ باغیچے تھے، نہ باغ اور نہ ٹیوب ویل۔ سکول کا گراؤنڈ مٹی سے اٹا ہوا تھا اور کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے غائب تھے۔ سکول کی ابتر حالت دیکھ کر ہمیں پتہ چلا کہ پرائیویٹ اور سرکاری سکولوںمیں کیا فرق ہوتا ہے اور سرکاری سکولوں میں تعلیم کے انحطاط کی وجہ اسی وقت ہمیں سمجھ بھی آگئی۔