ڈاکٹرقدیرخان کو قید میں پڑے چار سال ہو چکے ہیں اور اب تو ان کی قید کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جانے لگی ہے۔ وزیراعظم گیلانی اور بادشاہ آصف زرداری کہتے ہیں کہ ڈاکٹرقدیر کو جنہوں نے قید کیا ہے وہی انہیں رہا کریں گے۔ فوج کہتی ہے کہ ڈاکٹر قدیر کی نظربندی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے مگر ڈاکٹر قدیر کہتے ہیں کہ ان کے گھر کے باہر فوج پہرہ دے رہی ہے۔

یہ بات تاریخ سے سچ ثابت ہوتی ہے کہ پچھلی کئی صدیوں سے مسلمانوں نے اپنے ہیرو رسوا کئے اور غداروں اور ڈکٹیٹروں کو عزت بخشی۔ خالد بن ولید، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، سراج الدولہ، ٹیپو سلطان، ایم ایم عالم اور ڈاکٹر قدیر کیساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کے الٹ بڑے بڑے سلطان، مغل بادشاہ، مسلمان ملکوں کے غلام حاکم اور فوجی ڈکٹیٹر قوم کو ذلیل کرنے کے باوجود عزت دار کہلوائے اور اپنے بڑے بڑے مزاروں میں اعزاز کیساتھ دفن ہوئے۔ یعنی مسلمانوں نے غداروں کو ڈھیل دی اور اپنے محسنوں سے بے اعتنائی برتی۔

آج اگر پاکستانی ڈاکٹر قدیر کو رہا کرانا چاہیں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں روک سکے گی۔ ہم لوگ کروڑوں کی تعداد میں کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں اور غیر ہمیں غیراہم سمجھ کر پیروں تلے کچل رہے ہیں۔ اگر ان کروڑوں لوگوں میں سے چند لاکھ لوگ غیرت کی انگڑائی لے لیں تو ڈاکٹر قدیر کو مشرف کیا اور اس کے آقا بھی قید نہیں رکھ سکیں گے۔ بس ذرا ہمت اور اتحاد دکھانے کی ضرورت ہے۔

وکلاء کا ججوں کی بحالی کیلیے لانگ مارچ تو بہت دور کی بات ہے اگر صرف راولپنڈی کے لوگ جو لاکھوں میں ہیں ایک دن ارادہ کرکے سڑکوں پر نکل آئیں اور ڈاکٹر قدیر کے گھر کا رخ کرلیں تو ساری فوج مل کر بھی ان کا راستہ نہیں روک سکے گی۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک ویک اینڈ پر لوگ ایک دوسرے کو ایس ایم ایس کر کے براستہ مری روڈ اسلام آباد جانے کو کہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام آباد ہائی وے انسانوں کے سیلاب سے بھر جائے۔ جب لوگ ڈھول باجوں کیساتھ اپنے بچوں کو ساتھ لیے ڈاکٹر قدیر کے گھر کی طرف بڑھنا شروع کریں گے تو دنیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ یہ احتجاج اور اس کے بدلے ڈاکٹر قدیر کی رہائی نہ صرف تاریخ کا حصہ بن جائے گی بلکہ گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں ہمیشہ کیلیے رقم ہو جائے گی۔

اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں کئی رکاوٹیں ہیں اور یہی رکاوٹیں ہماری ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ انہی رکاوٹوں کی وجہ سے ہم لوگ آزاد ہوتے ہوئے بھی غلام ہیں۔

ہم لوگ بے حس اور خود غرض بنا دیے گئے ہیں۔ ہر مسئلے پر ہم بنی اسرائیل کی طرح یہی سوچتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کریں گے بس ہمارا اللہ ہی سب کچھ کرے گے۔ ہم ایک بات بھول رہے ہیں اتنی بڑی دنیا میں ایک آدمی کی اب کوئ وقعت نہیں رہی۔ اب تو سب کو ملکر کوششں کرنا ہو گی۔

ہمارے لیڈر بھی غلام قوم کے غلام حکمران ہیں۔ انہیں قوم کی نہیں اپنی کرسی کی فکر دامن گیر رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھی بے غیرت ہو چکے ہیں اور ان میں بھی آزادی کی لہر آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

غیروں کی ہماری تعلیمی پالیسیوں اور نصاب میں مداخلت ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ رہی سہی کسر غیروں کا میڈیا پورا کر رہا ہے وہ جدھر چاہتا ہے عوام کی سوچ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ ہم ہیں کہ بھیڑ بکریوں کی طرح غیروں کی چھڑی کے اشاروں پر اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔

مایوسی گناہ ہے اور ہم بھی پاکستانیوں سے مایوس نہیں ہیں۔ نئی نسل کو میڈیا جہاں مغرب زدہ بنا رہا ہے وہیں اسے اعلٰی درجے کا شعور بھی عطا کر رہا ہے۔ یہی شعور ایک دن ہمیں غلامی سے نہ صرف آزادی دلائے گا بلکہ غلام حکمرانوں سے بھی نجات دلا دے گا۔ لگتا ہے تب تک ڈاکٹر قدیر کو نظر بند ہی رہنا پڑے گا۔