آج اسلام آباد میں ڈنمارک ایمبیسی کے نزدیک ایک کار بم ڈھماکہ ہوا جس میں آٹھ افراد شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ پولیس والے کہتے ہیں کہ یہ کار دھماکے سے پہلے اس علاقے میں ایک گھنٹے تک گھومتے ہوئے دیکھی گئی۔ دوسرے پہلے اسے ایک جگہ پر پارک کیا گیا اور پھر دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ حکومت نے کار کی وڈیو ڈنمارک ایمبیسی سے حاصل کرلی ہے جس کی رو سے پولیس کا دعویٰ ہے کہ کار کی نمبر پلیٹ جعلی تھی۔ جب کار دھماکے سے اڑائی گئی اس میں دو افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دھماکے میں تیس کلو مواد استعمال کیا گیا ہے۔

ابھی چند روز قبل ہمارے ایک دوست نے ہمیں بتایا کہ انتخابات سے قبل ان کے بیٹے کے دوست کے تین عزیز کار میں مال روڈ پر جارہے تھے۔ جب وہ فورٹریس سٹیڈیم کے پاس سرخ بتی پر رکے تو کار میں ایک نوجوان گھس آیا۔ اس نے اپنے پیٹ پر بندھی خودکش بیلٹ دکھاتے ہوئے کہا کہ اسے شہر میں گھمایا جائے اور جہاں پولیس کی گاڑی نظر آئے وہ کار اس سے ٹکرا دیں۔ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو وہ خود کو دھماکے سے اڑا دے گا اور اس کیساتھ وہ بھی مارے جائیں گے۔ پھر اس نے انہیں سمجھایا کہ مرنا تو ایک دن ہے ہی تو کیوں ناں جان کسی مقصد کیلیے قربان کی جائے۔ بقول ان لوگوں کے وہ لوگ کار میں ایک گھنٹہ تک گھومتے رہے مگر ان کی خوش قسمتی کہ اس دوران انہیں کوئی بھی پولیس کی گاڑی نظر نہ آئی۔ اس طرح وہ خودکش بمبار ایک چوک پر یہ کہ کر اتر گیا کہ اب اس کا وقت ختم ہو گیا ہے۔

اسی طرح کا واقعہ ہمارے ایک دوست انتخابات سے کچھ عرصہ قبل بھی سنا چکے ہیں۔ اب تک تو ہم نے ان واقعات کو کوئی سنجیدہ نہیں لیا تھا کیونکہ ان پر حقیقت کی بجائے افسانے کا زیادہ گمان ہوتا تھا۔

لیکن موجودہ کار دھماکے کے بعد ہمیں شک ہے کہ کہیں اسی طرح کا خود کش بمبار کسی کار کو اغوا کرکے تو نہیں گھماتا رہا اور جب اسے مطلوبہ ٹارگٹ نہیں ملا تو اس نے ڈنمارک ایمبیسی کے باہر خود کو کار سمیت دھماکے سے اڑا دیا۔ اس شک پر یقین اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ کار میں دو افراد سوار تھے جبکہ خود کش حملے کیلیے ایک آدمی ہی کافی ہوتا ہے۔ دوسرا شخص ہو سکتا ہے کار کا مالک ہو۔ دوسرے کار اس علاقے میں گھومتی دیکھی گئی اور ہو سکتا ہے خود کش بمبار لاہور کی طرح کار ڈرائیور سمیت اغوا کرکے اپنا ٹارگٹ دھونڈتا رہا ہو۔ تیسرے خود کش بمبار کو خود کو اڑانا ہی تھی تو اسے کار میں بیٹھنے کی ضرورت نہیں تھی وہ چل کر ایمبیسی کے زیادہ قریب پہنچ سکتا تھا۔ اگر اس نے کار بم دھماکہ کرنا تھا تو پھر وہ کار کو ریموٹ کنٹرول سے بھی اڑا سکتا تھا۔ ہاں اگر وہ کار کو کسی دوسرے گاڑی یا عمارت ٹکراتا تو بات سمجھ میں آتی تھی۔

اس حملے کی ترتیب سے تو یہی لگتا ہے کہ خود کش بمبار نے لاہور کی طرح پہلے کار اغوا کی اور پھر ڈرائیور سمیت خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ امید ہے تحقیقاتی ادارے اس تھیوری پر بھی غورکرتے ہوئے خودکش حملے کی وجوہات اور خودکش حملہ آور کو پہچاننے کی کوشش کریں گے۔

یہ تو سچ ہے کہ خود کش حملے صرف دو طرح کے ہی ہو سکتے ہیں۔ ایک انتقام لینے کیلیے اور دوسرا مذاکراتی عمل ختم کرنے کیلیے۔ انتقام وہی لوگ لیں گے جن کے عزیزواقارب ابھی تک قبائیلی علاقوں اور بلوچستان ميں ہماری فوج کا نشانہ بن رہے ہیں۔ حکومت اور طالبان میں مذاکرات کو ختم کرنے کیلیے ان مذاکرات کے مخالفین بھی خودکش حملے کراسکتے ہیں۔ انتقام والے حملے فوج واپس بلا کر ختم کئے جاسکتے ہیں جبکہ دوسری قسم کے حملے اپنے اتحادیوں کو مذاکرات کے عمل میں شامل کرکے ختم کیے جاسکتے ہیں۔