پچھلے اتوار کو کرکٹر آصف کے بٹوے سے جب ممنوعہ منشیات برآمد ہوئیں تو ہمارے ذہن میں بٹوے کی خوبیاں اور برائیاں ایک ایک کرکے گھومنے لگیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کے بٹوے میں افیون پڑی تھی اور کچھ کہتے ہیں کہ اس کے سوٹ کیس سے بھی منشیات برآمد ہوئی ہیں۔ جب تک اس کیس کا فیصلہ آئے، آئیں ہم بٹوے کی خوبیوں اور برائیوں پر بات کرتے ہیں۔

بٹوہ یا والٹ آدمی کا انتہائی ضروری ساتھی رہا ہے۔ اس بٹوے کے جہاں بہت سارے فوائد بھی ہیں وہاں کچھ نقصانات بھی ہیں۔ فوائد میں یہ آپ کی رقم کو ایک جگہ سنبھالے رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کا شناختی کارڈ، کریڈٹ کارڈ ، بنک کارڈ اور بزنس کارڈوں کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔

بٹوے سے پہلے گاؤں اور چھوٹے شہروں میں لوگ اپنی قمیضوں کے نیچے ایک بنیان کم واسکٹ جسے سلوکہ کہتے ہیں پہنا کرتے تھے۔ اس سلوکے کی کئی جیبیں ہوتی تھیں جن میں رقم چھپائی جاتی تھی۔ اس طرح آدمی سمجھتا تھا کہ وہ جیب کتروں سے محفوظ رہے گا لیکن بعد میں جیب کتروں نے سلوکے کی جیبوں پر بھی ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا۔

اسی طرح جیب کتروں نے بٹوے بھی چوری کرنے شروع کردیے۔ رقم کی چوری کیساتھ ساتھ آدمی اپنے تمام کارڈوں سے بھی محروم ہونے لگا۔ کچھ چور خاندانی ہوتے تھے جو رقم نکال کر بٹوہ آدمی کو واپس ارسال کردیتے تھے۔ اب ہائی ٹیک کا دور ہے اور چور رقم کیساتھ ساتھ کارڈوں سے بھی فائدہ اٹھانے لگے ہیں۔

ہمارے ایک پاکستانی بھائی امریکہ سے کینیڈا سیاسی پناہ کے چکر میں جب بارڈر پر داخل ہوئے تو انہوں نے امیگریشن والوں کو بتایا کہ وہ ابھی ابھی پاکستان سے امریکہ آئے ہیں اور اب سیاسی پناہ کیلیے کینیڈا داخل ہونا چاہتے ہیں۔ آفیسر نے انہیں اپنا بٹوہ دکھانے کو کہا۔ وہ احتیاط کے طور پر اپنے سارے امریکی کارڈ پیچھے چھوڑ آئے تھے تاکہ یہ پتہ نہ چلے کہ امریکہ میں کافی عرصے سے رہ رہے ہیں۔ آفیسر نے بٹوے کا بغور جائزہ لیا تو اسے کریڈٹ کارڈ کے کچھ نمبر نظر آئے اس نے بٹوے کو فوٹوسٹیٹ کرکے کریڈٹ کارڈ کے سارے نمبر پڑھ لیے اور اسے بتایا کہ یہ امریکن ایکپریس کا کارڈ ہے جو وہ کئی سالوں سے استعمال کررہا ہے۔ جھوٹ پکڑے جانے پر اسنے سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا اور دوست منہ لٹکائے واپس آگئے۔

اسی طرح ایک پاکستانی کو کینیڈا کی امیگریشن ملی لیکن ان کا کینیڈا میں دل نہ لگا اور انہوں نے امریکہ واپس جانے کا ارادہ کرلیا۔ ان کے پاس پکے امریکی کاغذات نہیں تھے بلکہ انہوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔ کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ نیاگرا فال امریکہ کی طرف سے دیکھنے کا بہانہ کرکے پل پار کر جائیں اور پھر واپس نہ آئیں۔ پل پر امیگریشن آفیسر کو انہوں نے نیاگرا فال دوسری طرف سے دیکھنے کی درخواست کی۔ آفیسر نے ان کا بٹوہ چیک کیا تو ان کے بٹوے میں سے ان کا ایلین نمبر نکل آیا۔ نمبر سے آفیسر کو معلوم ہوا کہ دوست نے امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ پھر کیا تھا اس نے دوست کے امریکہ داخلے پر پانچ سال کیلیے پابندی لگا دی۔

ان دوستوں کا خیال تھا کہ امیگریشن والے ان کا بٹوہ کہاں چیک کریں گے اور یہی غلط فہمی شاید آصف کو بھی ہوئی ہو گی تبھی تو انہوں نے افیون کی گولی اپنے بٹوے میں ڈال رکھی تھی۔ اگر آصف کو یہ معلوم ہوتا کہ ان کے بٹوے کی بھی تلاشی لی جائے گی تو وہ افیون کی گولی طیارے سے اترنے سے پہلے ہی کھا لیتے۔

اللہ کرے آصف اس پھڈے سے بچ جائیں نہیں تو ان کا پورا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔ اس غریب گھرانے کے آدمی کو مشہور اور امیر بننے کا ایک موقع ملا ہے کہیں اپنی بیوقوفی سے اسے بھی نہ گنوا دیں۔