ایک جنگل میں کسی طرح شیر بادشاہ کو ان کے اختیارات سے محروم کردیا گیا۔ یہ جدوجہد کے نتیجے میں ہوا یا کسی سازش کا شاخسانہ۔ بہرحال تمام اختیارات ایک زیرک و دانشمند بندر کو مل گئے۔ اپنی پہلی نشری تقریر میں جانوروں سے خطاب کرتے ہوئے تمام حیوانی حقوق کے تحفظ کا یقین دلایا گیا اور کہا گیا کہ کسی کو کسی کے حقوق سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سب مل جل کر آگے بڑھیں گے اور گزشتہ حکومتوں کے تمام مسائل بتدریج حل کر دیئے جائیں گے۔ تمام جانوروں کو باد شاہ سے ملنے کی آزادی ہوگی۔ پورے جنگ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ درختوں پر پرند، نیچے چرند، نئے باد شاہ کی فہم و فراست کے گن گا رہے تھے اور اپنے مسائل کو اس عظیم تبدیلی کی مسرت میں بھول گئے تھے۔چند روز بعد کھلی کچہری لگی ہوئی تھی۔ ایک لومڑی آئی اور جان کی امان پا کر اس نے بادشاہ سے عرض گزاری کہ میرے تین بچے گم ہوگئے ہیں اور شک یہ ہے کہ معزول بادشاہ شیر نے کسی چیتے کے ذریعے یہ بچے اٹھائے ہیں۔ شیر کی بادشاہت ضرور گئی ہے لیکن اس کے منہ کو لگا خون اسی طرح ہے اور ڈر ہے کہ وہ ان بچوں کو کھا نہ جائے۔ بادشاہ نے غور سے بات سنی پھر اس نے جھرجھری لی اور ایک جست لگا کر درخت پر جا بیٹھا۔ سب جانور پہلے حیران، پھر خوش، زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ اس میں ضرور کوئی رمز ہے اور سمجھنے کی بات ہے۔ لومڑی بے چاری غمزدہ اپنے بچھڑے ہوئے جگر گوشوں کے لئے … وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور کہ شاید اس میں کوئی راز چھپا ہو۔ اس سے بچے واپس آجائیں، بندر بادشاہ، پھر نیچے آکر تخت پر براجمان ہوگئے۔ لومڑی نے پھر گریہ کیا اور بادشاہ سلامت سے پھر فریاد کی، میرے بچے خطرے میں ہیں،کچھ کیجئے، میری نسل ختم ہوجائے گی۔ بندر نے پھر بات غور سے سننے کے بعد دوسرے درخت کی طرف زقند لگائی، پھر وہاں سے ایک نعرہ مستانہ بلند کرکے دوسرے پیڑ پر جا بیٹھا۔ رعایا پھر تالیاں بجانے لگی، واہ واہ کی صدائیں بلند ہوئیں۔ لومڑی بار بار زار و قطار روتی اپنے گمشدہ بلکہ اغوا شدہ بچوں کی یاد دلاتی، بندر ہر بار چار پانچ پیڑوں پر چھلانگ لگا کر واپس تخت پر آبیٹھتا۔ پورے دربار میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ہر جانور عش عش کررہاتھاکہ ہمیں کتنا متحرک، فعال، صحتمند بادشاہ ملا ہے اور جب آٹھویں نویں بار یہی طریق کار دہرایا گیا تو لومڑی سے برداشت نہ ہوا اور وہ چیخ پڑی کہ میرے بچوں کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا، شیر انہیں زندہ نہیں چھوڑے گا، انہیں بازیاب کروائیں۔
بادشاہ کو غصہ آگیا اور وہ زور زور سے دم ہلا کر، آنکھیں مٹکا کر بولے۔ لومڑی دنیا ہماری جدوجہد اور تگ و دو پر تالیاں بجا رہی ہے اور تجھ ناہنجار کو اپنے بچوں کی پڑی ہوئی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تو ہماری آنیاں جانیاں دیکھ اور اپنے بچوں کو بھول جا۔“