وزیراعظم نے بینظیر بھٹو کی ۵۵ ویں سالگرہ پر تمام قیدیوں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدلنے کی سمری صدر مشرف کو بھیج دی ہے۔ وزیراعظم کے اس عمل سے یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت ختم کر دی جائے گی۔ سزائے موت کے بارے میں دنیا میں مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک رائے کے مطابق سزائے موت جرائم میں کمی کیلیے ضروری ہے اور دوسری رائے کے مطابق سزائے موت سے جرائم میں کمی نہیں ہوتی۔ یورپ کے بہت سارے ممالک میں سزائے موت نہیں دی جاتی۔ اس کےمقابلے میں پاکستان سمیت مسلم ممالک میں سزائے موت برقرار ہے اور اس کا جواز اسلامی قوانین کو پیش کیا جاتا ہے۔ اسلامی قانون تو آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان کا حکم دیتا ہے۔ اسی طرح اسلام میں زناہ کا جرم بھی ثابت ہونے پر سنگساری کی سزا دی جا سکتی ہے یہ الگ بات ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں کئی دھائیوں سے اس سزا پر عمل معطل ہے۔

جو لوگ سزائے موت کی حمایت کرتے ہیں وہ سعودی عرب کی مثال دیتے ہیں کہ دیکھو وہاں پر قتل کے مجرم کو سرعام موت کے گھاٹ اتارا جاتا ہے اس لیے وہاں پر جرائم کی تعداد بہت کم ہے۔ مگر یہ دلیل دینے والے دوسرے ممالک کو بھول جاتے ہیں جہاں سزائے موت دی جاتی ہے مگر جرائم کم نہیں ہوتے۔ اسی طرح امریکہ میں سزائے موت کا اختیار ریاستوں کو حاصل ہے یعنی کچھ ریاستوں میں سزائے موت دی جاتی ہے اور کچھ میں اس پر پابندی ہے۔

دنیا کی انسانی حقوق کی تنظيمیں بھی سزائے موت کے خلاف ہیں اور وہ ہر اس ملک کو سزائے موت ختم کرنے کیلیے کہتی رہتی ہیں جہاں سزائے موت دی جاتی ہے۔ اسی طرح اب امریکہ سمیت یورپ کے تمام عیسائی ممالک اسلامی قوانین کی کھل نہ صرف مخالفت کرتے ہیں بلکہ مسلمان ملکوں پر ان قوانین کو معطل کرنے کیلیے دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔

دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو سزائے موت کو چھوڑ کر امریکہ اور یورپ میں دوسرے جرائم پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ زناہ کی سزا زیادہ سے زیادہ عمر قید ہے۔ یہاں تک کہ جھوٹ بولنے پر بھی کئی سال جیل کاٹنی پڑ سکتی ہے۔ اسی طرح قتل کی سزا عمر قید ہے اور جج مجرم سے سزا مکمکل ہونے سے پہلے پیرول پر رہائی کا حق بھی چھین سکتا ہے۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس کو قتل کیا گیا کیا اس کا خاندان مجرم کو سزائے موت کی بجائے عمرقید کی سزا کے حق میں ہے۔ کیا کبھی سزا سنانے سے پہلے مقتول کے لواحقین سے رائے لی گئ کہ وہ مجرم کو سزائے موت دینا چاہتے ہیں یا پھر عمرقید۔ اسی سال وکلاء تحریک کے دوران کراچی میں جلائے جانے والوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ مرنے والوں کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ان میں سے کئی اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے۔ ان کے بعد اب لواحقین زندگی کی جن تلخیوں سے گزریں گے کیا وہ مقتولین کو سزا ئے موت دینے کیلیے کافی نہیں ہیں۔ کیا مقتول اور اس کے لواحقین کے ساتھ زیادتی نہیں ہے کہ قاتل کو اس سلوک سے مبرا قرار دے دیا جائے جو اس نے قاتل کیساتھ کیا۔

یورپ اور امریکہ سزائے موت کے مخالف ہیں کیونکہ وہ سزائے موت کی سزا کو ظلم سمجھتے ہیں۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ وہ جو سلوک مبینہ دہشت گردوں کیساتھ کر رہے ہیں کیا وہ ظلم نہیں ہے۔ وہ جو تفتیش کے طریقے استعمال کر رہے ہیں کیا وہ ظلم نہیں ہے۔ اگر سزائے موت ظلم ہے تو پھر عمر قید کیا ہے۔ ایک آدمی کو ساری عمر قید کی کوٹھڑی میں بند کر دینا کیا ان کے نزدیک تفریح ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر دنیا میں قوانین نہ ہوتے اور ان پر عمل نہ ہو رہا ہوتا تو یہ دنیا مظالم کا اکھاڑہ ہوتی۔ اس دنیا میں اگر تھوڑا سا سکون ہے تو وہ سزا کے قانون کی وجہ سے ہے۔ لوگوں کو معلوم ہے کہ اگر انہوں نے زناہ کیا تو وہ ساری عمر جیل میں سڑتے رہیں گے اس لیے وہ زناہ نہیں کرتے۔ اسی طرح دھوکہ، فراڈ، قتل، چوری، ڈاکے ان ممالک میں نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں قانون کی عمل داری ہے۔ دوسری طرف ان ممالک میں جرائم پر قابو نہیں پایا جا رہا جہاں قوانین تو سخت بنائے گئے ہیں مگر ان پر عمل نہیں کیا جارہا۔

اسلام کا مطالعہ اگر کیا جائے تو اسلامی سزاؤں کی بنیادی وجہ بھی معاشرے کو جرائم سے پاک کرنا ہے۔ یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ جس جرم کی سزا سخت ہو گی وہ جرم لوگ کرم کریں گے۔ اس لیے اسلام نے اگر جرائم کی کڑی سزائیں رکھی ہیں تو ان کا مطلب یہ نہیں کہ مجرم پرظلم کیا جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک آدمی کو سخت سزا دے کر اسے باقی لوگوں کیلیے عبرت بنا دیا جائے تا کہ وہ جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچیں۔

ہم سزائے موت کے حق میں ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مجرم نے جو کچھ دوسرے کیساتھ کیا وہی کچھ اس کیساتھ ہونا چاہیے۔ اگر اس نے قتل کیا تو پھر اسے بھی سزائے موت ہونی چاہیے۔ ہاں اگر مقتول کے لواحقین مجرم کو معاف کرنا چاہیں تو ان کی مرضی ہے۔ لواحقین سے مراد مقتول کے انتہائی قریبی عزیز یعنی اس کے ماں باپ، بہن بھائی اور بیوی بچے جو اس کی موت کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔