پچھلے سال ہم اپنے بھانجے کی شادی پر گئے تو بارات والے دن ایک باریش آدمی جس نے سفید شلوار قمیض پہن رکھی تھی ہماری طرف بڑھا اور ہمارے ہاتھ چوم لیے۔ پہلی نظر میں تو ہم اسے پہچان نہ سکے مگر جب اس نے گفتگو شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ شریفاں ماچھن کا بیٹا عظیم ہے۔

بیس سال پہلے جب رحمت ماچھن کو اس کے لینڈ لارڈ نے اپنا تندور ہٹانے کا آرڈر دیا تو وہ ہماری والدہ کے پاس اپنا دکھڑا سنانے آگئی۔ ہماری والدہ چونکہ رحم دل ہیں اسلیے شاید ہی کسی کو خالی ہاتھ لوٹاتی ہیں۔ اکثر ہم نے دیکھا ہے کہ انہوں نے ادھار پکڑ کر دوسروں کی مدد کی ہے۔ ان کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک خوبی دلجوئی ہے۔  جب بھی کوئی ان سے مدد مانگنے آیا انہوں کبھی اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ اگر پاس کچھ نہیں ہوتا پھر بھی یہ کہ کر دوسرے ہی ڈھارس بندھاتی تھیں کہ بتاؤ کتنی رقم تمہیں چاہیے۔ جب بھی کسی نے حال پوچھا تو اللہ کا فضل ہی بتایا۔ کبھی کسی کے آگے اپنے حالات کا رونا نہیں رویا اور نہ ہی کبھی کسمپرسی کی حالت سے گھبرائیں۔ وہ کہا کرتی ہیں اگر کسی کے آگے اپنے دکھ بیان کرو گے، اس کا مدد کرنا دو دور کی بات، وہ تم سے ملنا تک چھوڑ دے گا۔ ہم نے والدہ کی یہی بات آج تک پلے باندھی ہوئی ہے اور یہ اسی کا پھل ہے کہ کبھی کسی نے ہم سے ملنا نہیں چھوڑا۔

والدہ نے رحمت ماچھن کو تسلی دی اور اسے اپنے گھر کا ایک کونا عارضی طور پر تندور لگانے کیلیے خالی کر دیا۔ رحمت ماچھن کا ایسا دل لگا کہ مرتے دم تک وہ اسی جگہ روٹیاں لگاتی رہی۔ اس کے دو بیٹے تھے۔ ایک کسی دوسرے شہر میں رہتا تھا اور دوسرا اس کے پاس۔ جو بیٹا اس کے پاس رہتا تھا اس کا نام عظیم تھا۔ عظیم لکڑیاں کاٹنے کا کام کرتا تھا اور ساتھ ساتھ شادی بیاہ پر کھانے پکانے کیلیے نائیوں کی مدد بھی کیا کرتا تھا۔ وہی اپنی ماں کیلیے تندور میں آگ لگاتا اور جب تندور تیار ہو جاتا تو پھر اس کی ماں روٹیاں لگاتی۔

غریت کی وجہ سے عظيم کے پاس عیاشی کا اور ذریعہ تو تھا نہیں اس نے چرس پینا شروع کردی۔ لیکن ماں کی خدمت کا جذبہ اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اس کی ماں بیمار ہوتی تو وہی دوا لا کر دیتا، وہی ماں کا بستر بچھاتا اور رات کو سونے سے پہلے اس کی ٹانگیں دباتا۔ عظیم کی ماں اس کی سگریٹ میں چرس ملا کر پینے کی عادت پر کڑھتی رہتی اور یہ گندی عادت چھڑانے کیلیے اس نے  کئی منتیں بھی مانگی ہوئی تھیں۔ ایک دفعہ وہ اپنے پیر صاحب سے ملنے گئی تو بیٹے کی نشے کی عادت کا ذکر چھیڑ بیٹھی۔ اس دن اس کے پیر صاحب نے کہا کہ بیٹے کی شادی کر دو وہ انشآ اللہ نشہ چھوڑ دے گا۔

رحمت ماچھن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ محلے والوں کی مدد سے بیٹے کی شادی کر دی۔ وہی ہوا یعنی بیٹا بیوی میں ایسا مگن ہوا کہ اس نے نشہ چھوڑ دیا۔ اب وہ میاں بیوی دونوں رحمت ماچھن کی خدمت کرنے لگے۔ اس دوران عظيم ماچھی کو اللہ نے چار بیٹوں کا باپ بنا دیا۔ اس کی بیوی تو انپڑھ تھی مگر بچوں کی پرورش کے ہنر سے واقف تھی۔ عظیم اپنی ماں کی خدمت کرتا رہا اور اس کی بیوی بچوں کی پرورش۔

بیس سال ایسے گزر گئے جیسے بیس سیکنڈ ہوں۔ عظیم کی ماں فوت ہو گئی۔ اس کے بچے جوان ہو گئے اور ایک مہربان کی مدد سے انہوں نے سنیاروں کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے عظیم ماچھی کے دن پھرنے لگے۔ بچوں نے اپنی اپنی دکانیں بنا لیں اور آج کل وہ شہر کے امیر سنیاروں میں شمار ہونے لگے۔ انہوں نے ماں باپ کیلیے عظيم الشان گھر بنایا اور باپ کو وقت سے پہلے ہی ریٹائرمنٹ لے دی۔ اب عظيم ماچھی، ملک عظيم کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ مسجدوں میں اپنی ماں کے نام پر عطیات دیتا ہے، غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ جن لوگوں نے برے وقت میں اس کی اور اس کی ماں کی مدد کی وہ جب بھی ملیں ان کے آگے اپنی پلکیں بچھا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے اس نے ہمارے ہاتھ بھی ہماری والدہ کے صدقے چومے۔ وہ سب سے کہا کرتا ہے کہ اس کی ماں کے بعد ہماری ماں ہی اس کی والدہ ہے۔ وہ جب بھی ہماری والدہ سے ملتا ہے کبھی ان کی برابری نہیں کرتا۔

ہماری والدہ اکثر عظیم ماچھی کی مثال دے کر نصیحت کرتی رہتی ہیں کہ دیکھو ماں کی خدمت کرتے رہنا اور دوسرے اپنی اولاد کی تربیت میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑنا۔ واقعی سچ ہے جس نے اپنے بزرگوں کی خدمت کی اس کے بچے اس کی خدمت کو دیکھ دیکھ کر جوان ہوئے اور پھر انہوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا ان کے باپ نے۔ عظيم ماچھی یعنی ملک عظيم واقعی ایک عظیم شخص ہے۔