جنگ واقعی ایک ایسا کھیل ہے جو عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھی آدمی جوش میں آکر ایسی جگہ پر ہاتھ ڈال لیتا ہے جہاں سے اس کا ہاتھ پھر سلامت واپس نہیں نکلتا۔

کچھ اسی طرح کی صورتحال کا مسٹر ڈائر کو سامنا کرنا پڑا۔ وہ انتہائی ڈرپوک شخص ہو گا مگر جونہی اس نے نو گیارہ میں ٹون ٹاورز گرتے دیکھے، جھٹ سے آرمی میں کمیشن لے لیا۔ سرمنڈاتے ہی اولے پڑنے والی بات ہوئی یعنی بیچارے کو فوری طور پر عراق بھیج دیا گیا۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں وہ عراق فتح کرنے والے فوجیوں میں شامل تھا۔ جنگ کے دوران جب ایک عراقی خاندان فائرنگ کے درمیان پھنس گیا تو اس نے خاندان کے ایک بچے کی جان بچا کر تب شہرت حاصل کی جب اس کی فوٹو اخباروں میں چھپی۔ وہ ایک شریف آدمی تھا وہ میڈیا کو یہی کہتا رہا کہ اس نے کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دیا بلکہ وہی کچھ کیا جو دوسرے کر رہے تھے۔

پھر وہ جنگ کے بعد گھر لوٹ آیا۔ اس کے بعد دوسرےسابق فوجیوں کی طرح وہ بھی پوسٹ‌ٹرامیٹک سٹریس ڈس‌آرڈر یعنی پی ٹی ایس ڈی کی بیماری کا شکار ہو گیا۔ محاذ جنگ پر جانے سے پہلے ہی اس نے شادی کی تھی۔ پہلے تو اس کی بیوی نے بھرپور کوشش کی کہ وہ ٹھیک ہو جائے مگر جب وہ اپنی کوشش میں ناکام ہو گئی تو اس نے الگ رہنا شروع کر دیا۔

پچھلے چار پانچ سالوں میں وہ نفسیاتی مریض بن گیا اور اپنے ڈیپریشن کو کم کرنے کیلیے نشہ کرنا شروع کر دیا۔ وہ ریسٹورنٹ میں ہمیشہ دیوار کیساتھ لگ کر بیٹھا کرتا کیونکہ اسے ڈر رہتا تھا کہ کوئی عراقی اسے پیچھے سے قتل نہ کردے۔ اسی طرح ایک دفعہ اس نے گھر پر فائرنگ شروع کردی، اسے لگا کہ عراقیوں نے اس پر حملہ کر دیا ہے۔ وہ ہمیشہ گھر جاتے ہوئے ڈرتا تھا اور اسلحے کے بغیر گھر داخل نہیں ہوتا تھا۔

اس کی فیملی کیمطابق وہ انتہائی شریف اور خیال رکھنے والا انسان تھا مگر جنگ سے لوٹنے کے بعد وہ پہلے جیسا ناں رہا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ پھر سے نارمل ہو جائے۔ اس کیلیے وہ ہسپتال بھی داخل رہا مگر جنگ میں جو اس نے دیکھا یا جو اس نے کیا وہ اس گناہ سے پیچھا نہ چھڑا سکا اور اس ہفتے نشہ زیادہ کرنے کی وجہ سے مر گیا۔

ہو سکتا ہے فوج والے آدمی کو فوج میں بھرتی کرتے وقت یہ ضرور معلوم کرتے ہوں کہ بھرتی ہونے والا بہادر ہے اور وہ دشمن کو مارنے سے نہیں ڈرے گا۔ اس کے باوجود بہت سے شریف لوگ فوج میں جوش میں آ کر بھرتی ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی میں کبھی چڑیا تک نہیں ماری ہوتی، وہ شیر کا شکار کرنے نکل پڑتے ہیں۔ جب وہ اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو قتل ہوتا دیکھتےہیں تو پھر گھبرا جاتے ہیں۔ ہم تو خود ڈرپوک آدمی ہیں اور مارکٹائی سے دور بھاگتے ہیں۔ پری میڈیکل میں جب مینڈک کی چیر پھاڑ ہوتے دیکھی تو ہم گھبرا گئے اور ارادہ بدل کر انجنیئرنگ کی طرف چلے گئے۔

امریکی میڈیا کے مطابق فوجیوں کی بہت بڑی تعدار عراق سے لوٹنے کے بعد پی ٹی ایس ڈی کی بیماری کا شکار ہے اور اکثریت آرمی کے محکمے کی بے حسی کا بھی گلہ کرتی ہے۔ جنگ میں تو انہوں نے اپنی قوم کی خدمت کی مگر اب ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔

ان جیسی بہت ساری تباہ کن حقیقتوں کے باوجود عالمی طاقتیں جنگ سے گریز نہیں کرتیں اور وہ اپنے ہی آدمیوں کو اس کی بھینٹ چڑھاتی رہتی ہیں۔ اس ظلم اور زیادتی کے خالق کا بھی بہت بڑا دل ہوتا ہو گا وگرنہ درد دل رکھنے والا انسان کبھی دوسروں کو موت کے منہ میں نہیں بھیجتا۔

یہ حالت تو ان لوگوں کی ہے جو جنگ جیتنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کے ملک کو جنگی میدان بنا دیا گیا اور جو بے گھر ہو گئے۔ جن کے خاندان کے خاندان تباہ کر دیے گیے اور اب وہ کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر ہیں۔ کیا ان لوگوں کی آہیں بے اثر جائیں گی، کیا ان کا خدا ان کو اسی طرح سسک سسک کر مرتے دیکھتا رہے گا، کیا وہ ایسے ہی بےیارومددگار بھٹکتے رہیں گے، اور کیا ظالم اسی طرح ظلم کرتے رہیں گے۔ نہیں کبھی نہیں ایک ناں ایک دن مظلوم اکٹھے ہوں گے اور وہ ظالموں سے ان کے مظالم کا حساب ضرور لیں گے۔ اب وہ یوم حساب کب آئے گا یہ مظلموں پر منحصر ہے وہ کب متحد ہوتے ہیں۔