رحمان ملک جو ممبر پارلیمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی وزیر نہیں بن سکتے تھے اپنے آقاؤں کی آشیرباد اور پارٹی چیئرمین کی مرضی سے مشیر داخلہ بن کر وفاقی وزیر کی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت ملک پر چار لوگوں کی حکومت ہے اور ان میں سے ایک مشیر داخلہ رحمان ملک ہیں۔ ان کی اس کامیابی کے پیچھے بیرونی جمہوری طاقتوں کی غلامی کا ہاتھ بھی ہے۔ انہی طاقتوں کے کہنے پر رحمان ملک جنرل مشرف کی روشن خیالی کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

ان کی روشن خیالی کی ایک مثال اخبار ایکپریس کی ایک خبر ہے جس میں انہوں نے پولیس کو لوگوں کے منہ سونگھنے اور نکاح نامے دیکھنے سے منع کر دیا ہے۔ ہم نے جب سے یہ خبر پڑھی ہے یہی سوچ رہے ہیں کہ رحمان ملک کو یہ احکامات جاری کرنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ کہیں پولیس والوں نے امیروں اور حکمرانوں کی اولادوں  کے منہ سونگھ سونگھ کر انہیں پریشان کرنا تو شروع نہیں کردیا تھا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں جہاں شراب پر پابندی نہیں ہے وہاں بھی شراب پی کر اگر کوئی گاڑی ڈرائیو کرتا ہوا پکڑا جائے تو پولیس اس کا بریتھ ٹیسٹ یعنی منہ کی بو ضرور چیک کرتی ہے۔ بلکہ اس کے مزید ٹیسٹ لیتی ہے۔ اسے کچھ فقرے بولنے کا حکم دیتی ہے، چند قدم چلنے کو کہتی ہے اور اس کے بعد جب پورا یقین ہو جائے کہ اس نے ایک مقررہ حد سے زیادہ شراب پی ہوئی ہے تو اسے پکڑ کر اندر کر دیتی ہے۔ ایک ہمارا ملک جو مسلمانوں کا ہے اس میں آج سے اگر آپ شراب پی کر ڈرائیو کریں گے یا محلے میں غل غپاڑہ کریں گے تو پولیس آپ کو موقع پر شرابی ثابت نہیں کر پائے گی۔ یعنی آج سے آپ شراب پی کر جو چاہے کریں آپ کو پولیس نہیں پکڑے گی۔

اسی طرح آج سے پولیس والے کسی بھی جوڑے کا نکاح نامہ چیک نہیں کریں گے تاکہ جو چاہے ملک میں جس کیساتھ بغیر نکاح کے جوڑا بنا لے اور آزادی سے گھومے پھرے۔ حدود قوانین میں پچھلی حکومت نے جنرل مشرف کے کہنے پر جو ترامیم کیں ان پر اب مشیر داخلہ نے عمل کرانا شروع کر دیا گیا ہے۔

شادی ہال لاہور سے فحش حرکات کرتے ہوئے پکڑے جانے والے شہری

لگتا ہے یہ حکم نامہ ابھی لاہور پولیس کےپاس نہیں پہنچا کیونکہ ابھی کل ہی ایکپریس اخبار کیمطابق پولیس والوں نے میرج ہال پر چھاپہ مار کر عورتوں اور مردوں کو فحش حرکات کرتے ہوئے نہ صرف گرفتار کیا ہے بلکہ پاکستانی سٹائل میں ان کی چھتر پریڈ بھی کی ہے۔ ہو سکتا ہے کل یہ خبر بھی آجائے کہ مشیر داخلہ نے اس طرح عورتوں اور مردوں کو پکڑنے پر پولیس کی سرزنش کی ہے اور پولیس کی اس کاروائی کو لوگوں کی زندگی میں مداخلت قرار دیا ہے۔ لگتا ہے حکومت نے مہنگائی پر قابو پانے کی بجائے لوگوں کو اپنے غم غلط کرنے کی سہولتیں دینے کی ٹھان لی ہے۔ یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ کل کو رحمان ملک صاحب عمرے پر بھی چلے جائیں اور قوم ان کے دونوں رنگ دیکھنے پر بھی خاموش رہے۔