ہمارے معاشرے میں عزت کا معیا دولت ہے نہ کہ اچھا کردار۔ وہ دن اب خواب ہوۓ جب لوگ شرافت اور اچھے کردار سے پہچانے  جاتے تھے۔ سکول ٹیچر صرف بے لوث ہوتا تھا اور شازونادر ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ اگر محلےمیں کوئی رشوت خور ہوتا تھا تو سب اس کو جانتے تھے۔ تھانیداروں اور پٹواریوں کے گھر اوپر کی کمائی میں مشہور ہوتے تھے۔
اب وقت بدل چکا ہے اور لوگ اپنے محلے میں اس کو جانتے ہیں جو رشوت نہیں لیتا اور اب تو یہ قسم نایاب ہوتی جارہی ہے اور مشکل سے آپ کو اپنے محلے یا شہر میں ملے گی۔ جب معاشرے میں عزت کا یہ معیار مقرر ہو جاۓ تو پھر ہر کوئی دولت کے پیچھے ہی بھاگے گا اور جائز ناجائز میں کوئی تمیز نہیں رہے گی۔
ہمیں پتہ ہے کہ اب بھی انہی پیشوں کا میرٹ زیادہ ہے جن میں طالبعلم کو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اوپر کی کمائی ہوگی۔ سی ایس ایس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں ان پیشوں کو لوگ اولیّت دیتے ہیں جن میںحرام کی کمائی کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ اسی لۓ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کو پہلے پولیس کا محکمہ ملے اور اگر یہ نہیں تو پھر انکم ٹیکس کا محکمہ۔
ہم جہاں بھی ملازم ہیں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اس جگہ ہماری پوسٹنگ ہو جہاں حرام کا مال دستیاب ہو۔
ہم امیر بننا چاہتے ہیں تاکہ ہمارا معاشرہ میں ایک مقام ہو اور ہم تھانے والوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ ہر کام ہمارا آسانی سے ہو جاۓ ۔ غریبوں کو ہم ذلیل کرسکیں۔
اب یہاں دوسراکیوں ہم استعمال کرتے ہیں۔
ہم حرام کا مال اکٹھا کرتے ہوۓ کیوں نہیں ڈرتے؟
میرا جواب یہ ہے کہ ہمارے ہاں احتساب کا شفاف نطام نہیں ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی پکڑ نہیں سکے گا۔ اس پکڑ سے بچنے کیلۓ ہم اپنے باس کو بھی ساتھ ملا لیتے ہیں۔ اسطرح ہرمحکمے میں پہلے اگر ایک حرام خور ہوتا تھا تو اب پورا گروپ ہوتا ہے۔ اب اگر آپ چاہیں تو اس کیوں کا جواب دیجۓ۔ سوال پھر دہراتے ہیں۔
ہم حرام کا مال اکٹھا کرتے ہوۓ کیوں نہیں ڈرتے؟