ايم کيو ايم کے سربراہ نے سپريم کورٹ بار ايسوسي ايشن کے زيرِ اہتمام دوسري سياسي جماعتوں کے ساتھ مناظرے ميں چند باتيں کہي ہيں جن کي نہ ہميں سمچھ آسکي ہے اور نہ ان کا کوئي سر پير نظر آیا ہے۔ اگر ہمارے مہرباں اس گتھي کو سلجھانے ميں ہماري مدد کرسکيں تو ان کا احسان ہو گا۔
پہلي بات جو انہوں نے کي ہے وہ وردي اور جرنيلي کے بارے ميں ہے۔ وہ وردي کے سوال کے جواب ميں فرماتے ہيں” کہ وردي تو وردي ہي ہوتي ہےاور جہاں تک مشرف کي وردي کي بات ہے تو ان کي وردي درست ہے مگر آئين کے آرٹيکل ٦ کے تحت کسي جرنيل کو اقتدار ميں مداخلت کا اختيار نہيں” اب ہمارا سوال يہ ہے کہ کيا مشرف جرنيل نہيں ہيں اور اگر ہيں تو پھر وردي اور جرنيل ميں کيا فرق ہوا؟
دوسري بات انہوں نےيہ کہي کہ” ہمارے ملک ميں چند مفاد پرست خاندانوں کے ٹولے اورفوجي جرنيلوں نے اقتدار پر قبضہ کر رکھا ہےجن کي آپس ميں رشتہ دارياں ہيں اور حکومت کسي کي بھي آۓ مال انہي کے گھروں ميں رہتا ہے” ہمارا سوال يہ کہ يہ سب باتيں معلوم ہونے کے باوجودالطاف صاحب موجودہ فوجي حکومت کا حصہ بن کر اس کے اقتدار کوپھر کيوں طول دے رہے ہيں؟ اور اگر وہ يہ کہتے ہيں کہ ملک پر جرنيلوں کا قبضہ ہے تو ان کا اشارہ جنرل مشرف کي طرف ہے يا کسي اورجنرل کي طرف؟
تيسري بات بھي اپنے اندر پيچيدگي سميٹے ہوۓ ہے۔ وہ کہتے ہی کہ ” ملک ميں مارشل لا نہيں ہے کيونکہ ملک ميں قومي اسمبلي اور سينٹ کام کر رہي ہے” مگر ايک اور سوال کے جواب ميں يہ بھي کہتے ہيں کہ ” اگر جماعت اسلامي، پيپلز پارٹي ، مسلم ليگ نواز گروپ اور ديگر سياسي جماعتيں ملکر چند نکاتي ايجينڈا تيار کرليں تو پھر وہ ان کے ساتھ ملکر بحالي جمہوريّت کي جدوجہد ميں شامل ہونے کيلۓ تيار ہيں” ان کا دوجگہوں پر اپني ہي بات کي نفي کرنا اپني سمجھ ميں نہيں آيا۔ اگر ملک ميں مارشل لا نہيں ہے تو پھر وہ کس جمہوريت کيلۓ جدوجہد کرنا چاہتے ہيں۔
آخري بات انہوں نے يہ کہي کہ “ميں وطن آنے کيلۓ تيار ہوں مگر مجھ پر قاتلانہ حملے کۓ گۓ” مگر ساتھ ہي يہ بھي کہتے ہيں کہ “ميں موت سے نہيں ڈرتا کيونکہ يہ کہيں بھي آسکتي ہے” ان کي اس آخري بات کے تضاد کو بھي ہم سمجھ نہيں سکے۔ اگر وہ موت سے نہيں ڈرتے تو اپنے ملک واپس آکر قوم کي خدمت کريں اور برطانوي شہريت کو ترک کر ديں۔
ہمارا خيال ہے کہ وہ بھي پير پگاڑو کي طرح اب باتيں اشاروں کنايوں ميں کرنے لگے ہيں۔ ورنہ وہ اپني ہي باتوں کي نفي اس طرح نہ کرتے۔