آج ہمارے ایک قاری فدا نے بی بی سی کی ایک خبر کے حوالے سے ہمارے بلاگ پر تبصرہ کیا تو ہمیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے بارے میں تجسس پیدا ہوا۔ اب تک انٹرنیٹ پر تلاش میں جو ہمیں معلوم ہوا ہے وہ بی بی سی کی کہانی سے ملتا جلتا ہے۔
ایف بی آئی کی سائٹ پر ابھی بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی مطلوب اشخاص کی لسٹ میں شامل ہیں۔ اسی طرح فری پبلک ڈاٹ کام نے امریکی اخباروں کی روپورٹوں کے حوالے سے جو کچھ لکھا ہے وہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو یا تو ایجنسیوں نے اٹھایا یا پھر القاعدہ نے اغوا کر لیا۔ القاعدہ پر اس لیے شبہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کو ایجنسیوں کی تحویل میں جانے سے بچا سکے۔
کیج پرزنرز ڈاٹ کام نے بھی ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں لکھا ہے اور پوچھا ہے ان سے کون خوفزدہ ہے۔ اس سائٹ پر ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں مزید تفصیل موجود ہے۔ ڈان اخبار اور گلف نیوز نے ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی سے قبل خبر دی تھی جس میں لکھا تھا کہ ایف بی آئی انہیں ڈھونڈ رہی ہے۔ اس خبر سے بھی ڈاکٹر عافیہ کا تعلق القاعدہ سے دکھایا گیا ہے۔ بائیں بازو کی تنظيم کی ویب سائٹ لیفٹ ٹرن ڈاٹ اورگ نے بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بازیابی کیلیے آواز اٹھائی ہے اور اس کے بارے میں لکھا ہے۔ پاکستانی اخبار ڈیلی ٹائمز ڈاٹ کام نے بھی ڈاکٹر عافیہ کے متعلق اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کی اس رپورٹ میں بھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
نیوز لائن نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے بعد جلد ہی اس کی والدہ کا انٹرویو کیا تھا جس میں ان کی والدہ نے ڈاکٹر عافیہ کے سابق خاوند پر بھی شک کا اظہار کیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ڈاکٹر عافیہ کی گمشدگی کے بعد ایجنسیوں کے لوگ ان کے گھر آئے تھے۔ انہیں خاموش رہنے کی تلقین کی تھی اور بولنے کی صورت میں خطرناک نتائج کی دھمکی دی تھی۔
تمام خبروں اور رپورٹوں کے مطابق ڈاکٹر عافیہ ایک انعام یافتہ ایم آئی ٹی کی گریجویٹ خاتون ہیں اور وہ معذور بچوں پر تحقیق کر رہی تھیں۔ ایف بی آئی کی لسٹ پر آنے کے بعد پاکستانی ایجنسیوں نے ان سے تحقیق کی اور وہ کچھ حاصل نہ کر سکیں۔ ان پر مذہب اسلام اور خاص کر جہاد کی تعلیم کا الزام ہے اور انہیں خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ ڈان اخبار میں ایڈیٹر کے نام ایک خط میں ایک لکھاری نے ڈاکٹر عافیہ سمیت ان مسلمان گرفتار شدگان کو رہا کرنے کی گزارش کی ہے تاکہ ان کے صدقے سپر پاور دوسرے مسلمانوں کے دل جیت سکے۔
ہمیں کوئی یہ سمجھائے کہ نامزد ملزموں سے معلومات اگلوانے یا اقرار جرم کرانے کیلیے کتنے وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کے اکثر تہذیب یافتہ ممالک پولیس کو ملزم سے تفتیش کیلیے ایک دو ماہ کا وقت دیتے ہیں اس کے بعد اگر ملزم پر وہ جرم عائد نہ کر سکیں تو اسے رہا کر دیا جاتا ہے لیکن ہماری ایجنسیاں اپنے لوگوں کو کئی کئی سال عقوبت خانوں میں قید رکھ کر پتہ نہیں کیا حاصل کرتی رہتی ہیں۔
ہمیں تو ڈاکٹر عافیہ کیساتھ ساتھ اس کے تین معصوم بچوں کا رہ رہ کر خیال آتا ہے جو بیچارے اپنی ماں کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہوں گے اور نہ جانے کس حال میں ہوں گے۔ اغوا کرنے والے سنگدل کم از کم بچوں کو تو واپس کر دیتے۔ اب تک جتنے بھی لوگ غائب ہوئے ڈاکٹر عافیہ واحد گمشدہ ہیں جو معصوم بچوں سمیت غائب ہو گئیں۔
ڈاکٹر عافیہ کہاں ہوں گی قارئین ہمارے مہیا کردہ ریفرنسز یعنی لنکس سے خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔
نوٹ: عافیہ صدیقی پر کالم نگار عرفان صدیقی ، اوریا مقبول جان حامد میر اور اشتایق بیگ نے بھی لکھا ہے وہ یہاں ، یہاں یہاں اور یہاں پڑھیے۔
تازہ خبر
آج مورخہ 3 اگست 2008 کے دن بی بی سی نے رپورٹ دی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے خاندان کی وکیل کو ایف بی آئی والوں نے بتایا ہے کہ وہ زندہ ہے مگر زخمی حالت میں افغانستان کی جیل میں ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ زخمی کیسے ہوئی اور اس کے بچے کدھر ہیں۔ لیکن اس کے بعد میں اس مخمصے میں پڑ گئے ہیں کہ ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر یقین کریں جس میں ڈاکٹر عافیہ ابھِی بھی موسٹ وانٹڈ لسٹ میں ہے یا پھر اس ایجنٹ کی جس نے ڈاکٹر کے ایف بی آئی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کی ہے۔ واہ رے مولا تیرے رنگ۔ لیکن ہمیں تو ابھِی بھی دل کو دھڑکا لگا ہوا ہے، کہیں ای میل کا کسی نے مذاق ہی نہ کیا ہو۔
پاکستانی اخبار امت نے امریکی اخبار بوسٹن گلوب کے حوالے سے ڈاکٹرعافیہ کے بارے میں کچھ نئے انکشافات کیے ہیں۔
10 users commented in " ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی گمشدگی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackوہ جہاں بھی ہیں کسی “محمد بن قاسم“ کی آرزو مند ہوں گی!!! مگر کس حجاز بن یوسف کو خط لکھے! یہ سمجھنے سے قاصر ہیں!! کہ کوئی ہو تو سہی!
جو کچھ پچھلے چار سال میں ذرائع ابلاغ نے بتایا اس کے مطابق ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کسی ایجنسی نے اغواء کیا ۔ میرے علم کے مطابق ایجنسیوں والے سفاک اور جنگلی درندے ہوتے ہیں ۔ اگر مغوی کا اللہ پر کامل اور مضبوط ایمان نہ ہو تو وہ ناکردہ عمل کو اپنے ذمہ لے لیتا ہے ۔ اگر مغوی سچ پر قائم رہے تو اسے جسمانی ۔ نفسیاتی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اس طرح کئی مر جاتے ہیں یا مار دیئے جاتے ہیں ۔ خواتین اگر زندگی پوری نہ ہونے کی وجہ سے بچ جائیں اور کسی طرح رہا ہو جائیں تو وہ پھر اپنے آپ کو کسی کو شکل دکھانے کے قابل نہیں سمجھتیں ۔ عراق میں امریکیوں نے ایسی ہی اعلٰی تعلیم یافتہ کم از کم تین خواتین کے ساتھ جو وحشت گری کی اس کی مثال شائد کہیں اور نہیں ملتی ۔ ان کے کپڑے پھاڑ دیئے جاتے ۔ ان کو گھسیٹا جاتا اور ان پر گندگی پھینکی جاتی پھر کہا جاتا جاؤ نہاؤ ۔ ایسے غسلخانہ میں بھیجا جاتا جس کا درواز لاک نہیں ہو سکتا ۔ جونہی وہ نہانہ شروع کرتی کوئی درندہ امریکی فوجی کپڑے اتار کر اس پر ٹوٹ پڑتا ۔ اگر ایک کے قابو میں نہ آتی تو دوسرے امریکی درندے آ جاتے ۔ یہ درندگی اس وقت تک جاری رہتی جب تک خاتون بیہوش نہ ہو جاتی ۔
kia ap mqm ki leader ha
[URL=”http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/08/080803_aafiya_america.shtml”]’ڈاکٹر عافیہ امریکہ کی تحویل میں‘[/URL]
بالآخر اعتراف کرتے ہی بنی کہ ہم نے قید کررکھا ہے
dr.uafeya ko hr hla ma hakomt ko lana cahiay lykn hum gareb kr b kya skty han srf tora sa lkhna aat ha so woh lkh dyty ha hamare hakomt ka agr 1 mumber b acha ho to woh dr ko la skta ha pr aysa kon aay ga
ay allah hamry umar r.z.jysa hokomran dy aamen somaa aamen
افتخار اجمل بھوپال صاحب
يہ بڑی مايوس کن بات ہے کہ آپ ڈاکٹر عافيہ صديقی کے مقدمے کے بارے ميں اس بات کی بنياد پر جس کی حقيقت کوئ نہيں، امريکہ کی طرف برہمی اور طنزيہ جذبات کا اظہار کر رہے ہيں۔ يہ الزامات اور کہانياں، جو کہ اکثر خود ايک دوسرے کی نفی کرتی ہيں پاکستانی ميڈيا کے ايک مخصوص حصے کی جانب سے اس کيس کو سياسی رنگ دينے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
سب سے پہلے آپ اس بات کو ياد رکھيں کہ ایک ملک جہاں قانون کی حکمرانی نظام کا بڑا حصہ ہے، جو بھی جرم کا مرتکب ہو اسے بڑے صاف شفاف طریقے سے فوری انصاف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اور جہاں تک رہا تعلق تشدد کے الزامات کا، ميں يہ واضع کرنا چاہوں گا کہ قيديوں پر تشدد اور غیر انسانی تزليل کرنا امريکی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والا امریکی قانون کے تحت سزا کا مستحق ہے۔
ڈاکٹر عافيہ نے خود کہا کہ مجھ پر تشدد نہيں کيا گيا، يہ خبر جو مسلمانوں ميں پھيلائ جا رہی ہے بلکل جھوٹ ہے ۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ خود ان کی قانونی ٹيم نے يہ واضح کيا ہے کہ ان پر گرفتاری کے دوران کسی بھی قسم کا تشدد نہيں کيا گيا۔ اس کے علاوہ پاکستانی سفارت خانے کے افسران کو بھی حراست کے دوران ملنے کی اجازت تھی۔ ميں یہ ضرور کہوں گا کہ کچھ لوگ کسی بھی مسلۓ ميں معقولیت اور ثبوت چھوڑ کر جذبات کی بنیاد پر یکطرفہ رويہ اختيار کرتے ہيں۔
ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://www.state.gov
امریکاکی ناجائزنسل مشرف اور زرداری
سارے حکمران رقموں کے بھوکے اور ھم پر عذاب ھے.آج پاکستان کو اچھے بندوں کی ضرورت ھے.حکمران امریکا کو خوش رکھنے اور لالچ مے آ کر اپنی اور قوم کی ماں بیھنوں کو بیچ رھے ھے
پوری امت مسلمہ بے حس ہو چکی ہے۔
Leave A Reply