وعدہ خلافی حکمرانوں کا وطیرہ بن چکا ہے اور اسے یہ لوگ سیاست میں سب کچھ جائز ہے سے تعبیر کرتے ہیں۔ اب تو ڈھیٹ پن کی اتنی انتہا ہو چکی ہے کہ وعدہ توڑنے کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا وعدہ کوئی کاغذ پر لکھی حدیث نہیں تھا۔

ان حالات پر ایک آزاد قطعہ۔

دل کے پھپھولے پھوڑتے رہنا

لاچاروں سے منہ موڑتے رہنا

رسم  وفا  نبھائیں  گے  ہم

تم وعدہ  کرکے  توڑتے  رہنا

ان وعدہ خلافیوں کی وجہ سے ہی یہ سمجھا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت آمر جنرل مشرف کی پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ جنرل مشرف نے بھی وعدے توڑے اور موجودہ حکومت بھی وعدہ خلافیوں کے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔

پہلے حکومت نے ججز بحال کرنے کا وعدہ توڑا اور پھر اکیلے نواز شریف نے دوسری ڈیڈ لائن گزار دی۔ ان کی اتحادی پیپلز پارٹي کے بقول اس کے بعد بھی مسلم لیگ ن کے وزراء تمام مراعات حاصل کر رہے ہیں۔

مشیرِ داخلہ ان وعدہ خلافیوں کا مرکز سمجھے جا رہے ہیں اور ان کا ساتھ دے رہے ہیں جنرل مشرف کے دور کے سیکریڑی داخلہ کمال شاہ جن کے کنٹریکٹ کو توسیع دے دی گئ ہے۔ ضمنی انتخابات کی تاریخ کو بڑھا کر واپس لینا مشیرِ داخلہ کی پہلی سبکی تھی۔

اب آئی ایس آئی کے ہاتھی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کے بعد وزیراعظم کو واپس کر دینا ان کی دوسری شرمندگی ہے۔ جب نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تو مندرجہ ذیل بیانات دے کر اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی گئ۔

سیکریٹری داخلہ کمال شاہ نے ارشاد فرمایا “اس سے قومی سلامتی سے متعلق انٹیلی جینس کے کاموں کو منظم اور مربوط کیا جا سکے گا اور دونوں اداروں کی کارکردگی بہتر ہو گی”۔

رحمان ملک نے کہا “ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے جس سے قومی سلامتی کو تقویت ملے گی”۔

آصف زرداری نے کہا “یہ عوامی حکومت کا ایک اہم قدم ہے جو آئی ایس آئی اور آئی بی کو بدنامی اور تنازعات سے بچا لے گا۔ اب آئی ایس آئی پر لگنے والے الزامات کی فوج نہیں وزارتِ داخلہ ذمہ دار ہو گی”۔

ایک اہم حکومتی شخصیت نے فرمایا “یہ فیصلہ جنرل مشرف، جنرل کیانی اور دیگر متعلقین کو اعتماد میں لیکر کیا گیا ہے”۔

ابھی بیانات کی بوچھاڑ جاری تھی کہ کہیں سے ایک میزائل حکومت پر آ کر گرا اور فیصلہ تبدیل کر دیا گیا جس کا جواز اتنا بے ڈھنگا تھا کہ سننے والوں کو اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔

اسی موقع کی مناسبت سے ہم نےایک اور آزاد قطعہ لکھا ہے۔

مطلب  نکلا تو  انساں تبدیل ہوا

ضرورت پڑی تو سخی بخیل ہوا

برف  پر  لکھا تھا  اس  کا  وعدہ

دھوپ نکلی، ہوا میں تحلیل ہوا

ہمارا حال تو ان گیدڑوں والا ہے جن کے سربراہ نے کہا کہ آؤ خربوزے کھانے کھیتوں میں جاتے ہیں۔ گیدڑ کہنے لگے کہ اگر مالک نے پکڑ لیا تو، سربراہ کاغذ کا ٹکڑا لہرا کر بولا دیکھو میں نے پہلے ہی سے اجازت لے رکھی ہے۔ ابھی گیدڑ خربوزوں پر ٹوٹے ہی تھے کہ مالکوں نے انہیں گھیر لیا اور سربراہ نے سب سے پہلے  دوڑ لگا دی۔ گیدڑوں نے اسے تحریر نامہ دکھانے کو کہا تو سربراہ بولا دوڑو دوڑو ہم انپڑہوں کے پلے پڑ گئے ہیں جنہیں تحریر پڑہنا نہیں آتی۔ سو حساب ہے ہم بھی انپڑہوں کے پلے پڑ چکے ہیں، دیکھیں وہ کہاں تک اپنی وعدہ خلافیوں کے ڈنڈے دکھا کر ہمیں دوڑاتے ہیں۔