پچھلے دنوں اسلام آباد ڈیفنس یونیورسٹی کے رہائشی حصے میں ایک کرنل کے بچوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ کرنل اس وقت ٹریننگ پر چین اور تائیوان کے دورے پر تھا۔ کرنل کا بھائی ہمارے شہر کا رہائشی نکلا اور جب لوگ تعزیت کیلیے اس کے گھر گئے تو اس نے کچھ اس طرح کی کہانی سنائی۔

اس صبح جب لوگ گھروں سے باہر نکلے تو انہوں نے ایک گھر سے دھواں اٹھتا دیکھا۔ وہ گھر پہنچے تو اس کا دروازہ باہر سے بند پایا۔ دروازہ توڑ کر اندر گئےتو سامنے ایک عورت اور اس کے معصوم بچوں کی جلتی ہوئی لاشیں دیکھیں۔ آرمی پولیس نے تفتیش کے دوران شک پڑنے پر بیٹ مین سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ اسی نے کرنل کی فیملی کو جلایا ہے۔ بقول اس کے جب اس کی ایک بڑی چوری پکڑی گئی تو اسے خدشہ تھا کہ کرنل کی بیوی کرنل کی واپسی پر اس کی شکایت کرے گی اور اس طرح اسے سزا ملے گی۔ اس نے سزا سے بچنے کیلیے کرنل کی بیوی کے سر پر استری مار کر گرایا اور پھر اس کو بچوں سمیت قتل کرنے کے بعد انہیں آگ لگا دی تاکہ اس کے جرم پر پردہ پڑ جائے۔

کرنل کی واپسی پر اس نے پولیس کی وساطت سے مجرم سے یہی سوال کیا کہ اس کی فیملی کو جلا کر اسے کیا ملا؟ پولیس نے کرنل کو یہاں تک پیش کش کی کہ وہ بیٹ مین کے سارے خاندان کو جیل بھیج دیتے ہیں مگر کرنل نہیں مانا۔

یہ کہانی سننے کے چند روز بعد ہمارے دوست نے اپنے میجر دوست کو فون کیا اور میجر نے اسے پاکستان واپس آنے کیلیے کہا۔ دوست نے کہا پاکستان اب آکر کیا کرنا وہاں پر تو اب آرمی آفیسرز کے بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ میجر نے بتایا کہ اس حادثے کی کچھ نہ پوچھو۔ میں خود اس کا تفتیشی افسر ہوں اور جو کہانی تم جانتے ہو اصل کہانی اس سے مختلف ہے۔ وہ اصل کہانی ہمارے دوست نے ہمیں نہیں بتائی، کیونکہ وہ اس خاندان کی مزید تضحیک نہی کرنا چاہتا تھا۔

وہ اصل کہانی کیا ہے یہ ہم اپنے قارئین پر چھوڑتے ہیں اور انہیں سوچنے پر اکساتے ہیں۔