ہماری اکثریت شیر شاہ سوری کو اس کے جی ٹی روڈ کے کارنامے کی وجہ سے جانتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی شیرشاہ سوری نے ملکی اور مالی اصلاحات، ذرائع آمدورفت، ڈاک کا انتظام، فوجی نظام اور مساوات میں بہت ساری اصلاحات کیں۔ ان کی تفصیل ڈاکٹرعطیہ الرحمٰن کی تحقیق پر مبنی ان کی کتاب شیر شاہ سوری میں مل سکتی ہیں۔

شیرشاہ سوری کے زمانے میں بھی مسلمان آپس میں لڑتے رہے اور وہ پٹھان، مغل، لودھی اور ان جیسے دوسرے گروہوں میں بٹے رہے۔ ڈاکٹر عطیہ کی تحقیق کے مطابق شیرشاہ سوری انتہائی چالاک اور چالباز انسان تھا جس نے اپنی چرب زبانی کی وجہ سے اپنے مخالفین کو زیر کیا۔ رہتاس جیسے مظبوط قلعہ کو بھی فتح کرنے کیلیے اس نے قلعہ کے مالک کو دھوکے سے شکست دی۔ اس نے راجہ ہرکشن کو بتایا کہ وہ جنگ کی وجہ سے اپنے عزیزوں اور دولت کو اس کے پاس چھوڑ کر جانا چاہتا ہے۔ اس نے بہت سارے تحفے تحائف کیساتھ یہ پیغام بھیجا کہ میں اپنے خزانے کیساتھ اپنی عورتوں کو ڈولیوں میں بھیجوں گا۔ پہلی چند ڈولیوں میں بوڑھی  عورتیں اور باقی میں دو دو سپاہی بٹھا دیے۔ پہلی ڈولیوں کو چیک کرنے کے بعد جب قلعے کا دروازہ کھول کر ڈولیوں کو اندر بھیجا گیا تو سپاہیوں نے باہر نکل کر حملہ کر دیا۔ راجہ نے قلعے کے پچھلے دروازے سے بھاگ کر جان بچائی۔

بادشاہ ہمایوں کو بھی اس نے دھوکے سے شکست دی۔ کئی حکمرانوں کو اپنی چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر ان کی قربت حاصل کی اور پھر انہی سے حکومت چھین لی۔

یہی چالاکی اور عیاری آج کل کی سیاست کا بھی حصہ ہے اسی لیے سیاستدان کہتے نہیں تھکتے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ آج کے پاکستانی حکمران بھی ایسی ہی چالاکیوں کی وجہ سے حکومت کر رہے ہیں۔ نوے دن میں انتخابات کی وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ دوسرے گروپ سے آئینی ترمیم کروا کر وردی اتارنے کے وعدے کو بھِی ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ججوں کو بحال کرنے کا وعدہ کرتے ہیں مگر اس وعدے کو لٹکانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کی طرح کی پارٹیاں جو پہلے ڈکٹیٹر کی مسلم لیگ ق کی اتحادی ہوتی ہیں، پھر ان کے مخالفین کیساتھ صوبائی حکومت میں شامل ہو جاتی ہیں مگر اس کیساتھ ساتھ مرکز میں ڈکٹیٹر کے مواخذے پر پھر اس کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں۔ بقول اخبار امت کے ایم کیو ایم صدر کے مواخذے کی حمایت کے بدلے وزارتیں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

یعنی ابھی تک یہی سمجھا جا رہا ہے کہ سیاست میں وہی کامیاب ہے جو سیاست کرتا ہے۔ کسی کے نزدیک اصول، وعدے کی پابندی اور وفاداری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسی طرح کے حکمران آنے والی نسلوں کو بھی یہی سکھار رہے ہیں کہ دھوکا اور مکاری ہی کامیابی کی کنجیاں ہیں۔ یہ اسی تربیت کا اثر ہے کہ ہمارے معاشرے میں ڈبل شاہ جیسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔