اپنے محسن بلاگر قدیر احمد جنہوں نے آخر کار اپنی قسم توڑ کر پھر سے لکھنا شروع کر دیا ہے کی بات سو فیصد درست ہے یعنی ہم کشمیر کے معاملے میں بے حس ہو چکے ہیں۔ لیکن ہماری نظر میں بے حسی سے بھی زیادہ خطرناک مایوسی اور بے بسی ہے۔ جب سے کمانڈو صدر جنرل مشرف نے ہم لوگوں کے دلوں میں بھارت کا خوف بٹھا رکھا ہے یعنی ہم سے بھارت دس گنا زیادہ طاقتور ہے، ہم لوگوں نے کشمیریوں کے متعلق سوچنا ہی ترک کر دیا ہے۔ دوسرے فی زمانہ جب ہم لوگ پاکستان کے مزید ٹوٹنے کی فکر میں مبتلا ہو چکے ھیں تو پھر کشمیر کی تحریک کسے یاد رہے گی۔

کشمیر کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ مسلمان آبادی والا خطہ ہے اور اس دور میں کشمیری مسلمانوں نے آزادی کی تحریک شروع کی ہے جب مسلم حکمران غیروں کی گودوں میں خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ فلسطین، چیچنیا اور بوزنیا کی تحریکوں کا موازنہ مشرقی تیمور اور جارجیا سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ موخر الذکر ممالک غیرمسلم تھے اسلیے عالمی طاقتوں نے ان کی آزادی میں دلچسپی لی جبکہ اولذکر مسلمان ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔

ابھی اسی ہفتے جب جارجیا پر روس نے حملہ کیا تو عراق اور افغانستان پر قابض اتحادی چلا اٹھے اور روس کو ان کی دھمکی کے جواب میں جنگ بندی کرنا پڑی۔ اتحادی نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کی کوئی بھی آزادی کی تحریک دنیا کے کسی بھی کونے میں کامیاب ہو کیونکہ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اس کے بعد مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو جائے گی۔

مسلم ممالک کے حکمران اس وقت پورے کے پورے غیرمسلموں کے پنچہ استبداد میں ہیں اور جب نفسا نفسی کا یہ عالم ہو تو پھر کون کشمیر جیسی آزادی کی تحریکوں کے بارے میں سوچے گا۔

آج ہماری وزارت خارجہ کے ترجمان نے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں اٹھانے کی بات کرکے سراسر جھوٹ بولا ہے۔ ہم یہ حق بھٹو دور میں جنگی قیدیوں کی آزادی کے بدلے پہلے ہی کھو چکے ہیں۔ اسی طرح بینظیر نے اپنے دور میں سکھوں کی تحریک کا خاتمہ کرنے میں ہھارت کی مدد کر کے کشمیر کی آزادی کو مزید مشکل بنا دیا۔ جنرل مشرف نے تو انتہا ہی کر دی انہوں نے تحریک آزادی کو دہشت گردی کی مہم بنا دیا۔

مقبوشہ کشمیر آزاد ہو سکتا ہے اگر مسلم امہ متحد ہو جائے اور اتحادیوں کی سازشوں کو بے نقاب کر دے۔ کشمیر آزاد ہو سکتا ہے اگر مسلمان حکمران بھارت کا معاشی بائیکاٹ کر دیں، ان کی تمام افرادی قوت کو عرب ممالک سے واپس بھیج دیں، پاکستان اور بنگلہ دیش بھارت کا تجارتی بائیکاٹ کر ديں، تمام مسلمان ملک ملکر کشمیر کے مسئلے کو عالمی قوتوں کے سامنے پیش کریں اور کشمیریوں کی مالی امداد اسی طرح شروع کردیں جس طرح اتحادیوں نے روس کے خلاف مجاہدین کی امداد کی۔ مگر ایسے کاموں کیلیے انفرادی کی بجائے اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے جو اس وقت ہم مسلمانوں میں ناپید ہے۔

تقسیم کرو اور حکومت کرو کا کلیہ صدیوں سے آزمودہ ہے اور اسی کو استعمال کرتے ہوئے اتحادیوں نے عثمانی سلطنت کے ٹکڑے کر دیے اور آج تک ان ٹکڑوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ کشمیر جیسی تحریکوں کی آزادی کیلیے ضروری ہے پہلے یہ تقسیم شدہ ٹکڑے یکجا ہو جائیں اور پھر بند مٹھی کی طاقت سے کشمیر کو آزاد کرایا جائے۔ تب تک انتظار کیجئے اور کڑھتے رہیے جس طرح ہم کڑھ رہے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے ہم لوگ تو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہائی نہیں دلا سکتے، کشمیر کیا آزاد کرائیں گے۔