دو دن پہلے قومي اسمبلي کے اجلاس ميں جب ايم ايم اے کے قاري گل رحمان نے ان کے حلقے کيلۓ فنڈز دينے پر وزيرِاعظم کا شکريہ ادا کيا تو مسلم ليگ نواز گروپ کے اقليتي رکن بھيل نےانہيں درباري مولوي کہ کر مخاطب کيا۔ اس کے جواب ميں گل نے انہيں ہندو کہ کر چپ رہنے کو کہا۔ اس کے بعد وہي ہوا جو ہمارا سٹائل ہے يعني ہاتھا پائي اور گالي گلوچ۔
نہ قاري صاحب کا مزہب انہيں بد تميزي سے روک سکا اور نہ اقليتي رکن کو شرم آئي بازاري فقرہ کستے ہوۓ۔ اس کے بعد قومي اسمبلي کے سپيکر نے وڈيروں والي بات کرتے ہوۓ اجلاس برخاست کيا اور دونوں ارکان کو وارننگ دي کہ وہ آپس ميں صلح کرليں وگرنہ وہ ان کے خلاف کاروائي کريں گے۔ يہ سياسي ہتھيار لگتا ہے کام کر جاۓ گا اور قومي اسمبلي کي رکنيت سے معطلي کي دھمکي ان شیروں کو گيدڑ بننے پر مجبور کردے گي۔
ہونا تو يہ چاہۓ تھا کہ سپيکر اسمبلي اسي وقت اپنے اختيارات کا استعمال کرتے اور دونوں کي رکنيت معطل کرنے کے بعد ان کا کيس پوليس کے حوالے کرديتے۔ اس سے کم از کم دوسرے اراکين کو کان ہوجاتے اور مستقبل ميں اس طرح کي بدتميزي سے وہ گريز کرتے۔ مگر چونکہ يہ سب سياسي لوگ ہيں اور ايک دوسرے کا خيال رکھتے ہيں اسلۓ سب پردے کے پيچھے اس مسلے کو حل کرنے ميں جت گۓ ہيں۔
يہ لڑائي جھگڑے کي وائيت ہمارا قومي ورثہ ہے اور روزانہ ہم روز کے معمولات ميں اس کي کہيں نہ کيہں جھلک ديکھتے رہتے ہيں۔ اسي وجہ سے نہ عوام نے اس کے خلاف احتجاج کيا ہے اور نہ دوسرے ارکانِ اسمبلي نے ان کي سرزنش کي ہے بلکہ ہرکوئي صلح کرانے ميں لگا ہوا ہے۔
اگر ملک کي اتنے بڑے ادارے ميں ڈسپلن کا يہ حال ہے تو پھر باقي محکموں کاتو اللہ ہي حافظ ہے۔