کل تراویح کے دوران عجیب ڈرامہ ہوا۔ ہماری مسجد میں عربوں کی اکثریت کیساتھ ساتھ دنیا جہان کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ حسب معمول اس سال بھی لبنانی امام صاحب نے تراویح کے وسط میں مختلف نمازیوں کی تقاریر کا اعلان کیا اور تقریر کا وقت خصوصی طور پر پانچ منٹ مقرر کیا۔ دو دن تو آرام سے گزر گئے پرکل جب خود امام نے پہلے عربی میں پھر انگریزی میں ترجمہ کرنے میں پانچ منٹ سے زیادہ وقت لے لیا تو کچھ اس طرح کا مکالمہ سننے کو ملا۔
پاکستانی نمازی “آپ نے آج پانچ منٹ سے زیادہ وقت لیا ہے”۔
امام “ہاں”۔
پاکستانی نمازی “آپ نے تو صبح سحری کر کے سو جانا ہوتا ہے مگر ہم نے کام پر جانا ہوتا ہے”۔
عربی نمازی “اگر وقت کی اتنی قدر ہے تو گھر پر نماز پڑھ لیا کرو”۔
پاکستانی نمازی “ہم مسجد میں تراویح پڑھنے آتے ہیں، لیکچر یعنی تقریر سننے نہیں”۔
اتنی دیر میں باقی نمازی منہ ہی میں بڑبڑانے لگتے ہیں اور لگتا ہے کہ رہے ہیں کہ یہ سب شیطان کی کارستانی ہے۔
جب تراویح کیلیے سب لوگ کھڑے ہوتے ہیں تو امام پھر لقمہ دیتا ہے “میں نے صرف سات منٹ لیے ہیں”۔
پاکستانی نمازی چلا کر “اس کا مطلب ہے تم نے پانچ منٹ سے زیادہ وقت لیا ہے”۔
امام مسجد پاکستانی نمازی کی بدتمیزی پسند نہیں کرتا، پھر مسجد میں ویسا ہی شور اٹھتا ہے اور لوگ استغفار استغفار پڑھنے لگتے ہیں۔
عربی نمازی “تم گھر پر نماز کیوں نہیں پڑھتے؟”۔
پاکستانی نمازی کچھ بولنے ہی لگتا ہے کہ بنگلہ دیشی امام تراویح کیلیے اللہ اکبر کہ کر نماز شروع کر دیتا ہے۔ نماز کے بعد نمازی چہ میگوئیاں شروع کر دیتےہیں۔ پاکستانی نمازی باہر سگریٹ سلگا کر اپنے دو دوستوں کیساتھ گپ شپ لگانی شروع کر دیتا ہے اور کافی دیر کے بعد گھر جاتا ہے۔
اب آپ بتائیں قصور زیادہ کس کا ہوا اور اس ڈرامے کا اختتام اچھے انداز سے کس طرح ہو سکتا تھا؟ ہم اپنی رائے کا اظہار اس کے بعد کریں گے۔
19 users commented in " قصوروار کون؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackامام صاحب کو پہلی دفعہ میں ھی اپنی غلطی کا اعطراف کرلینا چاہیے تھا۔
خیر ایک بات مجھے آپکی پسند نہیں آی، اس مین پاکستانی ،بنگالی اور عربی لکھیے کا کیا مقصد ھے؟
مجھے ایسا لگا جیسے بی بی سی والے کبھی کبھی ‘خاص‘ خبرون پر عوام کی راے کے لیے کرتے ھیین۔ راے لینا مقصد کم نظر آتا ھے اور انتشار پھیلانا زیادے لگتا ھے۔
معزرت چاھتا ھوں اگر کوی چیز بری لگی ھو، مگر جو دل مین آیا وھی لکھا ییر پھیر سے کام نہیں لیا ۔
فدا آپ کی صاف گوئی پر ہمیںکوئی اعتراض نہیں ہے۔ عربی، پاکستانی، بنگالی لکھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ دکھانا مقصود تھا کہ بہت سارے ملکوں کے لوگ ایک چھت کے نیچے اکٹھے نماز پڑھتے ہیں۔
پاکستانی کا قصور زیادہ ہے۔
بد تمیز صاحب !ـ کیوں جی؟؟
پاکستانی کا قصور کیوں زیادھ ہے ؟؟
جس نے بھی زیادھ وقت لیا ہےاس کو اس بات پر معذرت کرنی جاهیے تھی ـ
مجھے خود بڑی کوفت هوتی هے
جب کوئی مسجد میں تقریر کا شوقین جلال میں آکر تقریر کرتا ہي چلاجاتا ہے ـ
باقی جی آپ کو چھیکے بندے (سموکر) کے جذبات کا بھی خیال رکھنا چاهیے
اللّه کے فرض پورے تو کرتا ہے مگر سگریٹ کی طلب بھی بڑی نامراد هوتی ہے جی ـ
ماشااللھ، اور کیا کھئن
اس میں غلطی سراسر اضافی تقریر کرنے والے کی ہے۔۔ نمازوں میں خطبہ یا خطاب کب ہونا چاہیے اور کب نہیں یہ قریب قریب ہر فقہ میں پوری طرح بیان ہوچکا ہے ۔ اسکے علاوہ جب بھی کوئی اضافی تقریر ہوگی لوگوں کو گراں گزرے گی اور اسطرح کے مسائل ہونگے۔۔ نماز کے بعد کوئی نمازی ذاتی طور پر کیا کرتا ہے سوتا ہے یا جاگتا ہے اس سے جماعت کو غرض نہیں ہونی چاہیے۔
اسلام علیکم ۔محترم!
صلاۃ التراویح نفلی عبادت ہے ۔ جس بستی یا محلے میں یہ صلاۃ قائم کی جائے اس کے مکینوں پہ اسسے ادا کرنا چاہئیے ۔ یارو یہ تو نصیب کی بات ہے جسے نماز پڑھنی نصیب ہوئی ۔کون جانے اگلا سال نصیب بھی ہوتا ھے یا نہیں ؟-
اسلام میں امام کا بہت بڑا مقام ہے ۔ لہذٰاہ کسی بھی صورت میں امام کی اھانت نہیں کرنی چاھیئے ۔ اگر امام سے کسی وجہ سے اختلاف ہے تو اسے امام سے بیان کرنے کا طریقہ بھی باادب ہونا چاھیئے ۔ جس نے ادب کا دامن چھوڑا وہ سب کچھ گنوا بیٹھا ۔ ہمیں یاد رکھنا چاھیئے کہ اسلام ہمیں اخلاق سکھلاتا ہے ۔ اور اسوۃالحسنٰی صل اللہ و علیہ وا آلہ وسلم سے بھی اخلاق کی تاکید و تائید ملتی ہے ۔ اللہ ہمارے اعمال بہتر کرے اور ہماری کوتاہیوں کو معاف کرے ۔ آمین
آپ سب کو رمضان الکریم مبارک ہو۔
1. عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي اﷲ عنها: أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَّی ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّی بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّی مِنَ الْقَابِلَةِ، فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوْجِ إِلَيْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ، وَ ذَلِکَ فِي رَمَضَانَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
وَ زَادَ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ: وَ کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يُرَغِّبُهُمْ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةِ أَمْرٍ فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَانَ الْأَمْرُ کَذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنه وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رضي اﷲ عنه حَتَّی جَمَعَهُمْ عُمَرُ رضي اﷲ عنه عَلَی أُبِّيِ بْنِ کَعْبٍ وَ صَلَّی بِهِمْ فَکَانَ ذَلِکَ أَوَّلُ مَا اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَی قِيَامِ رَمَضَانَ.
و أخرجه العسقلاني في ’’التلخيص‘‘: أَنَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم صَلَّی بِالنَّاسِ عِشْرِيْنَ رَکْعَةً لَيْلَتَيْنِ فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ: خَشِيْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْکُمْ فَلَا تَطِيْقُوهَا.
’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ اور یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔‘‘
امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے ان الفاظ کا اضافہ کیا: اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیام رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نماز (تراویح) پڑھایا کرتے تھے لہٰذا یہ وہ ابتدائی زمانہ ہے جب لوگ نماز تراویح کے لئے (باجماعت) اکٹھے ہوتے تھے۔‘‘
اور امام عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرہ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اندیشہ ہوا کہ (نماز تراویح) تم پر فرض کر دی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔‘‘
الحدیث رقم 1: اخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب: التہجد، باب: تحریض النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی صلاۃ اللیل والنوافل من غیر ایجاب، 1 / 380، الرقم: 1077، و في کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 708، الرقم: 1908، و مسلم في الصحیح، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 524، الرقم: 761، و ابو داود في السنن، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1373، والنسائي في السنن، کتاب: قیام اللیل و تطوع النہار، باب: قیام شہر رمضان، 3 / 202، الرقم: 1604، و في السنن الکبری، 1 / 410، الرقم: 1297، و مالک في الموطا، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 113، الرقم: 248، و احمد بن حنبل في المسند، 6 / 177، الرقم: 25485، و ابن حبان في الصحیح، 1 / 353، الرقم: 141، و ابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 338، الرقم: 2207، و عبد الرزاق في المصنف، 3 / 43، الرقم: 4723، والبیہقي في السنن الکبری، 2 / 492، الرقم: 4377، و في السنن الصغری، 1 / 480، الرقم: 486، والعسقلاني في تلخیص الحبیر، 2 / 21۔
2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا أُنَاسٌ فِي رَمَضَانَ يُصَلُّونَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا هَؤُلَاءِ؟ فَقِيْلَ: هَؤُلَاءِ نَاسٌ لَيْسَ مَعَهُمْ قُرْآنٌ وَ أُبِيُّ بْنُ کَعْبٍ يُصَلِّي وَ هُمْ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَصَابُوا وَ نِعْمَ مَا صَنَعُوا.
رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَ ابْنُ خَزَيْمَةَ وَ ابْنُ حِبَّانَ وَ الْبَيْهَقِيُّ.
وَ فِي رِوايَةٍ لِلْبَيْهَقِيِّ: قَالَ: قَدْ أَحْسَنُوا أَوْ قَدْ أَصَابُوا وَلَمْ يَکْرَهْ ذَلِکَ لَهُمْ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حجرہ مبارک سے) باہر تشریف لائے تو رمضان المبارک میں لوگ مسجد کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہیں؟ عرض کیا گیا: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن پاک یاد نہیں اور حضرت ابی بن کعب نماز پڑھتے ہیں اور یہ لوگ ان کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہوں نے درست کیا اور کتنا ہی اچھا عمل ہے جو انہوں نے کہا کیا۔‘‘
اور بیہقی کی ایک روایت میں ہے فرمایا: انہوں نے کتنا احسن اقدام یا کتنا اچھا عمل کیا اور ان کے اس عمل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند نہیں فرمایا۔‘‘
الحدیث رقم 2: اخرجہ ابوداود في السنن، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 50، الرقم: 1377، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 339، الرقم: 2208، وابن حبان في الصحیح، 6 / 282، الرقم: 2541، والبیہقي في السنن الکبری، 2 / 495، الرقم: 4386۔ 4388، والہیثمي في موارد الظمآن، 1 / 230، الرقم: 921، و ابن عبدالبر في التمھید، 8 / 111، و ابن قدامۃ في المغني، 1 / 455۔
3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ: کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَ بِعَزِيْمَةٍ، فَيَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَ احْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَالْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ، ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلَی ذَلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَی ذَلِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح پڑھنے کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے چنانچہ فرماتے کہ جس نے رمضان المبارک میں حصول ثواب کی نیت سے اور حالتِ ایمان کے ساتھ قیام کیا تو اس کے سابقہ (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک نمازِ تراویح کی یہی صورت برقرار رہی اور خلافت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں اور پھر خلافت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے شروع تک یہی صورت برقرار رہی۔‘‘
الحدیث رقم 3: اخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب: صلاۃ التروایح، باب: فضل من قام رمضان، 2 / 707، الرقم: 1905، و مسلم في الصحیح، کتاب: صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب: الترغیب في قیام رمضان و ھو التراویح، 1 / 523، الرقم: 759، والترمذي في السنن، کتاب: الصوم عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب: الترغیب في قیام رمضان وما جاء فیہ من الفضل، 3 / 171، الرقم: 808، وقال ابو عیسی: ھذا حدیث حسن صحیح، و ابو داود في السنن، کتاب: الصلاۃ، باب: في قیام شہر رمضان، 2 / 49، الرقم: 1371، والنسائي في السنن، کتاب: الصیام، باب: ثواب من قام رمضان و صامہ ایمانا و احتسابا، 4 / 154، الرقم: 2192، ومالک في الموطا، کتاب: الصلاۃ في رمضان، باب: الترغیب في الصلاۃ في رمضان، 1 / 113، الرقم: 249، و احمد بن حنبل في المسند، 2 / 281، الرقم: 7774، ، و ابن خزیمۃ في الصحیح، 3 / 338، الرقم: 2207، و ابن حبان في الصحیح، 1 / 353، الرقم: 141، و عبد الرزاق في المصنف، 4 / 258، الرقم: 7719، والبیہقي في السنن الکبری، 2 / 493، الرقم: 4378، والطبراني في المعجم الاوسط، 9 / 120، الرقم: 9299۔
ملاحظہ فرمایے،
http://www.jang.net/jm/9-5-2008/pic.asp?picname=03_09.gif
کروسیڈ کے اصل مقاصد۔
پاکستانیوں میں اسلام قرآن اور مسجد کا بہت احترام پایا جاتا “تھا“
لیکن میں نے پاکستان میں ہی مسجدوں (ڈرف ایک مسجد نہیں) میں نمازیوں کو ایسے شور کرتے اور گالیاں دیتے مار پیٹ کرتے دیکھا ہے کہ خدا کی پناہ۔
اور یہ حرکت جو آپ نے لکھی ہے پاکستانیوں نے مساجد میں اس سے بھی بڑھ کر حرکتیں کی ہیں۔ اچھا ہوا یاد کروا دیا۔ ان شا اللہ اس پر بھی ضرور لکوں گا۔
میرے خیال میں پاکستانی یہاں مسجد میں جو کرتے ہیں وہ بھی نہیں کرنا چاہیے پر باہر جا کہ اپنی اصلیت تو بالکل نہیں دکھانی چاہیے۔
میرے خیال میں غلطی پاکستانی کی ہے۔
غلطی ایک جانب جہاں امام صاحب کی ہے وہیں اس نمازی کی بھی ہے۔ امام صاحب کو پہلی مرتبہ ہی اپنی غلطی تسلیم کر کے معذرت کرنی چاہیے تھی لیکن پاکستانی نمازی نے جس انداز میں گفتگو کی ہے وہ انتہائی اہانت آمیز ہے اور اس پر امام صاحب کا غصہ بجا ہے۔ امام ایک محترم ہستی ہوتی ہے اور عام بندہ بھی بھری محفل میں ایسی تذلیل برداشت نہیں کر سکتا۔ ذرا سوچیے کہ اگر امام کی جگہ آپ ہوتے تو کیسا محسوس کرتے؟ اللہ ہمیں ہدایت دے۔
ابو شامل نے بالکل بجا کہا اول غلطی امام صاحب کی تھی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُن کے ساتھ بدتمیزی سے بات کی جاتی۔
یہاں دونوں برابر کے قصور وار ہیں امام کا منصب ایک لیڈر کا سا ہوتا ہے اس وقت وہ پوری جماعت کی لیڈری کررہے تھے اور لیڈر وہ ہی ہوتا ہے جو بات کو زیادہ بگڑے بغیر سنبھال لے۔
اماموں کا ادب ضروری ھے، مگر جب امام اپنے وعدوں پر قایم نہیں رھیںنگے تو ایسا برتاو عجیب نہیں ھوگا۔
ویسے بھی مسلمانوں کی صرف مسجد میں ھی تو چلتی ھے۔
گھر کے اندر خاتون خانہ اور گھر کے بہر زمانہ،
اب بندہ اپنے وجود کا اھساس دلاے تو کہاں؟
خیر یہ باتیں ایسی ھیں جیسے کسی کے گھر میں آگ لگی ھو اور وہ اس آگ سے گھبرا کر فلم دیکھنے بیٹھ جاے۔
اوپر کسی نے بہت ھی پریشانکن لنک پوسٹ کیا ھے
http://www.jang.net/jm/9-5-2008/pic.asp?picname=03_09.gif
کل تراویح کے بعد دس پندرہ نمازیوں کے گروپ نے اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا اور سب کی رائے یہی تھی جو یہاں پر قارئین نے دی ہے۔ یعنی پہلے امام صاحب کی غلطی جنہوں نے اپنے وعدے کا پاس نہیںکیا اور پھر نمازی کی غلطی جس نے بدتمیزی کی۔
ہمارے خیال میں نمازی کو سرعام ایسی بات نہیںکرنی چاہیے تھی اگر اسے شکایت تھی تو وہ امام صاحب سے الگ بات کرتا جس کا نتیجہ اچھا ہی نکلتا۔
اگر نمازی نے سرعام بات کر ہی دی تو پھر امام کی معذرت اس مسئلے کو وہیں ختم کر سکتی تھی مگر لگتا ہے امام صاحب اس حملے کیلیے تیار نہیں تھے۔ اسلیے وہ اتنے سٹپٹا گئے کہ آگے کیا کرنا چاہیے یہ ان کے ذہن سے ہی نکل گیا۔
اپنی زندگانی میں دیکھا ہے جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں مسجد میں انکادل کم ہی لگتا ہے جہاں دل گھبراءے گا وہاں ایسا فساد تو ہوگا
آپکے بلاگ پر بڑی دیر سے ٹریک بیک کیچ ہوا
مزید یہ کہ آپکے بلاگ کا کاپی رائیٹ سال پرانا ہو چکا ہے 🙂
آپکا بلاگ دیکھ کر میں نے اپنے بلاگ پر تصحیحکر لی ہے وہاں بھی ابھی تک 2008 ہی آ رہا تھا;)
Good
Leave A Reply