تيل کي قيمتوں ميں حکومت کي بے ايماني کا مقدمہ سپريم کورٹ ميں دائر کرديا گيا ہے۔ اس مقدمے ميں اب مسلم ليگ ن اور سپريم کورٹ بار بھي شريک بن رہي ہے۔ جيسا کہ ہم سب جانتے ہيں کہ حکومت آج تک تيل کي قيمتوں ميں اسلۓ اضافہ کرتي آئي ہے کہ عالمي سطح پر تيل کي قيمتيں بڑھتي رہي ہيں۔ اب جب دنيا ميں تيل قيمتيں کم ہوئي ہيں تو حکومت نے خسارہ کم کرنے کا بہانہ بنا کر تيل کي قيمتيں کم کرنے سے انکار کر ديا ہے۔ يہ مسلہ اب تک قومي اسمبلي اور سينٹ ميں بھي اٹھايا جاچکا ہے مگر حکومت ٹس سے مس نہيں ہوئي اور نہ ہي ہمارے مطلق العنان صدر نے اس ميں مداخلت کرنے کي کوشش کي ہے۔ آخر تنگ آکر متاثرہ فريقوں نے سپريم کورٹ کي مدد مانگي ہے۔ اب اصل امتحان سپريم کورٹ کا ہے کہ وہ کيا فيصلہ کرتي ہے۔ آج تک تو عدليہ آزاد نہيں رہي اور سارے فيصلے حکومت کے حق ميں ہي کرتي آئي ہے ۔ اس کي اصل وجہ اس کے ججوں کا حلف ہے جو انہوں نے اس حکومت کا دفاع کرنے کيلۓ اٹھا رکھا ہے۔ اس طرح ہماري نظر ميں تو سپريم کورٹ کے ہاتھ بندھے ہوۓ ہيں اور اس سے توقع نہيں کہ کہ وہ فوري طور پر حکومت کے خلاف فيصلہ دے دے۔ اميد يہي ہے کہ سپريم کورٹ يا تو اس مقدمے کو لمبے عرصے کيلۓ لٹکا دے گي يا پھر حکومت سے ملي بھگت کرکے تب فيصلہ کرے گي جب حکومت پہلے ہي تيل کي قيمتيں معمولي سي کم کرچکي ہوگي۔ اس وقت سپريم کورٹ يہ کہے گي کہ چونکہ حکومت اپنے وعدہ کے مطابق تيل کي قيمتوں کي کمي بيشي معمول کے مطابق کر رہي ہے اسلۓ يہ درخوست بے کار ہوگئ ہے اور خارج کي جاتي ہے۔ يہ بھي ہوسکتا ہے کہ سپريم کورٹ حکومت کي ملي بھگت سے حکومت کو تيل کي قيمتيں کم کرنے پر مجبور کرے اور حکومت بلکل فرضي سي قيمتيں کم کرے۔
حلانکہ ہماري نظر ميں يہ وقت حکومت کو تيل کي قيمتیں کم کرنے پر مجبور کرنے کا نہیں بلکہ يہ فجصلہ کرنے کا ہے کہ کيا حکومت نے قيمتيں کم نہ کر کے قانون شکني تو نہيں کي۔ اور اگر حکومت پر الزام ثابت ہوجاۓ تو اس کو اس نقصان کا ازالہ کرنے کيلۓ کہا جاۓ۔ مگر يہ سب باتيں خواب کي باتيں ہيں۔ سپريم کورٹ حکومت کو ڈرانے دھمکانے کے قابل ہے ہي نہيں اور ہم سمجھتے ہيں کہ متاثرہ فريق عدالت ميں جاکر سب کا وقت ضائع کر رہے ہيں۔ حکومت کو سيدھا کرنے کا صرف اور صرف ايک ہي طريقہ ہے اور وہ صرف عوام کي حکومت کے خلاف متحدہ تحريک ہے۔