آج صدر زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے جو پالیسی خطاب کیا اس میں کوئی نئی بات سننے کو نہیں ملی۔ انگریزی میں تقریر لگتا ہے صرف سفارتکاروں اور پاکستان کی اشرافیہ کیلیے تھی کیونکہ پاکستان کا عام آدمی ابھی تک انگریزی سے نابلد ہے۔

وہی دہشت گردی، معاشیت، ججز، صدارتی اختیارات، صوبہ سرحد کا نام، اور بھٹو خاندان کی تعریف کے موضوع پر پالیسی بیان جاری کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب ان پر عمل درآمد ہوتا ہے۔

ادھر صدر پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کی گارنٹی دے رہے تھے اور ادھر غیرملکی ڈرون پریڈیٹرز پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔

ہو سکتا ہے صوبہ سرحد کا نام بدل کر اسے اپنے کارنامے میں شامل کر لیا جائے مگر اس سے صوبہ سرحد میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔

بینظیر کی تصویر روسٹرم پر رکھنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آئی۔ اسی طرح پالیسی خطاب میں بھٹو خاندان کیلیے دعائے مغفرت بھی لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کی اوچھی حرکت تھی۔ تقریر کے آخر میں سندھی زبان میں پاکستان کھپے کا نعرہ لگانے کی بھِی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر ایسا کرنا تھا تو پھر باقی زبانوں میں بھی نعرہ لگانا چاہیے تھا۔

اکاونٹس کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ قائد حزب اختلاف کو دینے کی مثال پیش کی گئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کے حساب کتاب کیسے آڈٹ ہوتے ہیں اور اعتراضات کو کتنی اہمیت دی جاتی ہے۔

صدارتی اختیارات میں کمی کیلیے صدر نے کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی، کمیٹیوں کی تاریخ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ کمیٹی ان کی صدارتی میعاد ختم ہونے تک اجلاس ہی بلاتی رہے گی۔ صدر صاحب کی شہرت اتنی خراب ہے کہ ہمارے موجودہ سروے میں ابھی تک ایک بھِی شخص کو یقین نہیں ہے کہ صدر سترہویں ترمیم ختم کر دیں گے۔