کچھ عرصہ قبل جب ہم نۓ نۓ نوکري کے سلسلے ميں لاہور شفٹ ہوۓ اور ہم نے انار کلي بازار کي سير کرنے کا ارادہ کيا۔ جب ہم پنجاب يونيورسٹي کي سائڈ سے انار کلي بازار اپنے موٹر سائيکل پر داخل ہوۓ تو فورأ اندازہ ہوا کہ يہ تو ون وے ہے۔ ہم موٹرسائيکل سے اترے اور پيدل واپس ہولۓ۔ سوچا چوک ميں کھڑے سپاہي سے پوچھتے ہيں کہ ہم نے انارکلي بازار کے دوسري طرف جانا ہےکيسے جائيں۔

 جب پوليس والے سے پوچھا تو اس نے موٹرسائيکل سائيڈ پر لگوا دي اور کاغزات مانگ لۓ۔ہمارے کاغزات اس نے چيک کۓ اور ايک کھوکھے والے کو دے آيا۔ جب ہم نے اس سے کاغزات مانگے تو کہنے لگا کہ کھوکھے والے سے جاکر لے ليں۔ ہم کھوکھے والے کے پاس گۓ تو اس نے سو روپے کا مطالبہ کر ديا۔

 ہم پوليس والے کے پاس واپس آۓ تو اس وقت اس کے پاس اس کا باس تھانيدار کھڑا تھا۔ ہم نے اس سے شکائت کي تو وہ جاتے ہوۓ کہنے لگا کہ پوليس والا ہميں کاغزات دے دے گا۔ بعد ميں جب پوليس والے سےدوبارہ کاغزات مانگے تو اس نے پھر کھوکھے والے کے پاس جانے کي بات کي۔ آخر ہم نے جب ديکھا کہ کام بنتا نظر نہيں آتا تو ناچار کھوکھے والے کو سو روپے ديۓ اور اپنے کاغزات واپس لۓ۔

 تب ہميں معلوم ہوا کہ لوگ يہ کيوں کہتے ہيں” لاہور لاہور اے”۔