ہم اگر اکثر جہد مسلسل پر زور دیتے ہیں تو اس کے پیچھے اپنی زندگی کا نچوڑ جھلک رہا ہوتا ہے۔ ہم اگر کہتے ہیں کہ اپنی دہن میں لگے رہو تو اپنی زندگی میں نامکمل رہ جانے والے منصوبوں کا سوچ رہے ہوتے ہیں۔ ہم آج آپ سے اپنی زندگی کی ناکامیوں کی داستان اسلیے شیئر کرنے جا رہے ہیں تا کہ آپ ان جیسی ناکامیوں سے اجتناب کر سکیں۔

ہماری ایک عادت ہے کہ ہم اپنی کامیابیوں کی بجائے اپنی ناکامیوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ اسی طرح سدھار کا موقع ملتا ہے۔ ہم جب کبھی اپنے قریبی دوست سے اپنی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہیں تو وہ انہیں ہماری کسر نفسی سمجھتے ہیں اور پھر ہماری کامیابیوں کی لسٹ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ لیکن ہمارا نقطہ نظر یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم نے جہد مسلسل پر عمل کیا ہوتا تو اب ہم اس سے بھی اونچے مقام پر ہوتے۔ ہم جو کچھ ہیں اس پر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں مگر جو کچھ ہمیں حاصل کرنا چاہیے تھا اور حاصل نہیں کیا اس کو آج آپ کے سامنے ضرور رکھیں گے تا کہ آپ ہماری ناکامیوں سے سبق سیکھ کر اپنی کامیابی کا سامان پیدا کر سکیں۔

ہم نے انجنیئرنگ تک پڑھائی میں اتنی ہی دلچسپی لی جتنی ہمارے لیے کافی تھی۔ یعنی ایف ایس سی میں اتنا ہی پڑھا جتنا انجنیئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل سکے۔ ہمارے سامنے کوئی ٹارگٹ نہیں تھا کہ ہم نے فلاں قسم کی انجینئرنگ کرنی ہے۔ ہمارا میرٹ جس مضمون میں آیا ہم وہی انجنیئر بن گئے۔ یہ ہماری زندگی کی سب سے پہلی غلطی تھی یعنی ہم نے ٹارگٹ سیٹ نہیں کیا تھا اور جو زمانے نے دیا قبول کر لیا۔ ہم سے بہتر تو وہ کلاس فیلو تھا جس نے تب تک ایف ایس سی کی جان نہیں چھوڑی جب تک اسے میڈیکل میں داخلہ نہیں مل گیا۔

پھر ہم نے انجنیئرنگ میں اتنا ہی پڑھا جس سے ہماری فرسٹ کلاس آ سکے۔ اس کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑا کہ ہمیں اپنی پسند کی فرم میں نوکری نہیں ملی۔ نہ ہماری سفارش تھی اور نہ ہم کسی تحریری امتحان میں کامیاب ہو سکے۔ دونوں طرح کے لوگ اچھی اچھی ملازمتیں لے اڑے اور ہم دیکھتے رہ گئے۔

پھر ایک کلاس فیلو کی مدد سے ہمیں ایک فیکٹری میں نوکری ملی جو ہم نے دوسری نوکری کے چکر میں وقت سے پہلے ہی چھوڑ دی۔ جب معلوم ہوا کہ سوئی گیس فیلڈ کی نوکری میں سحراؤں کی خاک چھاننی پڑتی ہے تو ہم نے اس پر بھی لات مار دی۔ اس کیساتھ ہی ہمیں سانگلہ ہل شوگر مل میں نوکری ملی جو ہم نے کم تنخواہ کی وجہ سے ٹھکرا دی۔ اوپر نیچے تین نوکریاں ٹھکرانے کی ناشکری کا خمیازہ ہم نے پورا ایک سال بھگتا۔

ایک دن بیٹھے بٹھائے غیرمتوقع طور پر ہمیں انٹرویو کا خط ملا جس میں لکھا تھا کہ نواز شریف کی اتفاق فاؤنڈری کے پڑوس میں ان کی نئی سٹيل مل میں آ کر انٹرویو دے جاؤ۔ یہ انٹرویو بھی ہمارے ایک دوست کے چچا کے ایک دوست کی وساطت سے ملا جنہوں نے وہ سٹیل مل لگائی تھی اور ہماری درخواست ایک انجینئرنگ مینجر کے سپرد کر کے چلے گئے تھے۔ ایک سال بعد پتہ نہیں مینجر کو کیا سوجھی کہ اس نے ہمیں یاد کر لیا۔ پھر اس کے بعد کبھی نوکری میں وقفہ نہیں آیا کیونکہ ہم نے پرانی غلطی کبھی نہیں دہرائی۔

نتیجہ سیدھا سا ہے کہ

کبھی شارٹ پلاننگ مت کرو اور ہمیشہ دور کی سوچو۔

پہلی نوکری تبھی چھوڑو جب دوسری جوائن کرنے کا سو فیصد ارادہ بن جائے۔

ہو سکے تو سب سے پہلے اپنی منزل کا تعین کر لو اور پھر ہاتھ پاؤں مارنے شروع کرو۔

اوائل عمری میں ہی کڑی محنت کر لو تا کہ عمر کے آخری حصے میں اس کا پھل کھا سکو۔