ايم کيو ايم نے اعلان کيا ہے کہ اگر حکومت نے بلوچستان ميں فوجي ايکشن ١٣ جنوري تک بند نہ کيا تو وہ حکومت سے الگ ہو جاۓ گي۔ اب سوچنے والي يہ بات ہے کہ کيا ايم کيو ايم واقعي اتني سنجيدہ ہے کہ وہ حب الوطني کي خاطر سندھ کي گورنرشپ اور وفاقي وزارتيں قربان کردے گي۔ اب تک کي قومي جماعتوں کي کارکردگي کو اگر ديکھا جاۓ تو ہميں کم از کم يقين نہيں آتا کہ واقعي ايسا ہوگا۔ اب تو مطلب پرستي سياسي جماعتوں ميں اتني عام ہوچکي ہےکہ ان کے کسي وعدے پر تب تک اعتبار نہيں آتا جب تک کہ واقعي وہ کر کے نہ دکھائيں۔

يہ ہوسکتا ہے کہ حکومت تب تک عارضي جنگ بندي کرلے اور ايم کيو ايم کي لاج رکھ لے تاکہ ايم کيو ايم کو مزہبي جماعتوں کے مقابلے ميں مظبوط کرنے کا حکومت کا منصوبہ کامياب ہوسکے۔

يہ بھي ہو سکتا ہے کہ ايم کيو ايم خاموشي سے يہ اعلان کردے کہ اس نے يہ اعلان کرکے اپنا مقصد حاصل کرليا ہے اس لۓ اب وہ اپنا فيصلہ واپس ليتي ہے۔ اب تک تو يہ  روائت ساري سياسي جماعتوں کي رہي ہے۔ سياسي جماعتيں احتجاجي تحريکوں کا اعلان کرتي ہيں اور پھر بناں تحريک چلاۓ چپ سادھ ليتي ہيں۔

يہ بھي ہوسکتا ہے کہ ايم کيو ايم حکومت سے تو الگ ہوجاۓ مگر حزبِ اختلاف کي عدم اعتماد کي تحريک کا ساتھ نہ دے۔

ابھي چونکہ اليکشں ہونے ميں دو سال باقي ہيں اسلۓ ايم کيو ايم حکومت سے الگ ہونے کا خطرہ مول نہيں لے سکتي کيونکہ اسطرح يہ پھر فوجيوں کے زيرِعتاب آجاۓ گي۔

 ہم ايم کيو ايم کي حب الوطني کو مان جائیں گے اگر وہ اپنے اس وعدے پر قائم رہے۔