پچھلے سو سال میں اسلام کو پھر سے زندہ کرنے کی جتنی بھی تحاریک اٹھی ہیں وہ ایک حد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پائیں۔ اکثر کو اسلام مخالف طاقتوں کی حمایت یافتہ مسلمان حکومتوں نے پنپنے نہیں دیا۔ مصر کی اخوان المسلمین کی تحریک کو جمال ناصر سے لیکر موجودہ صدر حسنی مبارک نے اٹھنے نہیں دیا۔ ترکی میں اسلام پسند پارٹی کو کئی دفعہ پابندی لگا دی گئی۔ نائجیریا میں انتخاب جیتنے والی اسلامی پارٹی کو حکومت دینے کی بجائے مارشل لاء لگا دیا گیا۔ پاکستان میں اسلامی جمہوری اتحاد کو دھوکے سے جنرل ضیاء کی جھولی میں ڈال کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ جماعت اسلامی بھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ خاص کر موجودہ امیر قاضی حسین احمد کی قیادت میں جماعت نے کوئی خاص ترقی نہیں کی بلکہ اپنی سٹریٹ پاور اور تحریک چلانے کی مہارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔

موجودہ پاکستان میں اسلام کی جنگ چار پانچ جماعتیں لڑ رہی ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام، جمیعت علمائے پاکستان اور تحریک جعفریہ سیاست میں بھی حصہ لے رہی ہیں۔ جبکہ منہاج القرآن سیاست سے تائب ہو چکی ہے۔ تبلیغی جماعت واحد مذہبی جماعت ہے جو سیاست سے دور رہی ہے۔

تبلیغی جماعت اسلام کے احیا کیلیے اس وقت غیرسیاسی اور مذہبی تنظیم کے طور پر میدان میں سرگرم ہے۔ اس تحریک نے سست روی سے اپنا سفر جاری رکھا ہوا ہے اور ہمارے خیال میں اس جدید گمراہی کے دور میں مسلمانوں کو مسلمان رہنے میں یہ بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کی بہت ساری باتوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس  کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

لندن میں بہت بڑے تبلیغی مرکز کی تعمیر میں اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ بریلوی حضرات، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام کی مخالفت کے باوجود اس جماعت کی کارکردگی میں فرق نہیں آیا بلکہ اس کے ممبران کی تعداد میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس جماعت کی خوبیوں میں اس کی تندہی، صبر اور خودانحصاری نمایاں ہیں۔ جماعت اسلامی کے بعد یہ جماعت ابھی تک اپنے اندر نظم و نسق بحال رکھے ہوئے ہے۔

تبیلیغي جماعت کا سب سے بڑا نعرہ “دشمن کے مقابلے سے پہلے اپنے آپ کو تیار کرنا” ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت نے ابھی تک جہاد کو اپنے منشور سے باہر رکھا ہے۔ اس کے اسی ایک نقطے پر دوسری اسلامی تحریکوں کو اختلاف ہے۔ اس جماعت میں خاصے پڑھے لکھے افراد شامل ہیں جن میں اساتذہ کی بہت بڑی تعداد شامل ہے۔

حیرانی اس بات پر ہے کہ مغربی ممالک اور اسلام مخالف قوتوں نے ابھی تک تبلیغی جماعت کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی اسے موجودہ انتہا پسندی کیساتھ منسلک کیا ہے۔ اس کے تبلیغی گروہوں کو مغربی ممالک میں آنے  جانے کی آزادی حاصل ہے۔ اس کی بڑی وجہ شاید جہادی فلسفے سے علیحدگی ہو گی۔ تبلیغی جماعت کے علاوہ جماعت احمدیہ ایک ایسی تنظیم ہے جو جہاد پر یقین نہیں رکھتی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تبلیغی جماعت والے مسلمان اور جماعت احمدیہ والے غیرمسلم ہیں۔

حج کے بعد اس جماعت کا بہت بڑا اجتماع بنگلہ دیش، انڈيا اور پاکستان میں ہوتا ہے۔ رائے ونڈ میں تو اب اس اجتماع کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اس اجتماع کی سب سے بڑی خوبی اس کا بہترین انتظام ہے اور یہ اب تک دہشت گردی کے واقعات سے بھی بچا ہوا ہے۔ تبلیغی جماعت اگرچہ سیاست میں داخل نہیں ہوئی مگر اس کے ووٹ بنک سے سب آگاہ ہیں اور یہی وجہ ہے بڑے بڑے سیاستدان جو عملی مسلمان نہ ہونے کے باوجود اس کے اجتماع میں شرکت ضرور کرتےہیں۔

ہمارے خیال میں یورپ میں مسلمانوں کو مسلمان بنے رہنے میں تبلیغی جماعت بہت بڑا کردار ادا کر رہی ہے اور ہو سکتا ہے ایک دن اسی جماعت کی بدولت باعمل مسلمان اتنے طاقتور ہو جائیں کہ وہ اسلام کو ایک کامیاب دین کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔

تبلیغی جماعت دوسری دینی جماعتوں کی طرح بلکہ انتہا کی حد تک صرف اور صرف تبلیغ اسلام پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اس کا دنیاوی تعلیم، سوشل ورک اور کامیاب عملی زندگی گزارنے کی تربیت سے دور رہنا مسلمانوں کیلیے اچھا نہیں ہے اور شاید یہی بہت بڑی وجہ ہے کہ یورپ اسے احیائے اسلام کا منبع تصور نہیں کرتا اور نہ ہی اسے فی الحال اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔

مذہبی تحریکوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہی رہی ہے کہ وہ صرف اور صرف عبادت پر زور دیتی رہی ہیں اور مسلمانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور اس کیلیے ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھنے سے قاصر رہی ہیں اور یہی غلطی تبلیغی جماعت بھی کر رہی ہے۔