شاہدميو ہسپتال لاہور ميں بسترِ مرگ پر پڑا اپني زندگي کي آخري سانسيں لے رہا ہے۔ اس کے دوست احباب اس کي عيادت کيلۓ آۓ ہوۓ ہيں۔ اچانک ايک ادھيڑ عمر خاتون اپنے بيٹے کے ساتھ کمرے ميں داخل ہوتي ہے۔ شاہد کے جسم ميں اس کو ديکھتے ہي جان پڑ جاتي ہے اور وہ اٹھ کر بيٹھ جاتا ہے۔ اتني دير ميں شاہد کي آنکھوں سے دو آنسو چھلکتے ہیں جو زمين پر گرنے سے پہلےہي اس عورت کے ہاتھوں کي مہندي بن جاتے ہيں۔ اس عورت کا بيٹا آگے بڑھ کر شاہد کے ہاتھوں کو بوسہ ديتا ہے اور پھر سر جھکا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ شاہد اس سارے منظر کو ديکھ کر آنکھیں بند کرليتا ہے اور چند لمحوں کيلۓ ماضي کي يادوں ميں گم ہوجاتا ہے۔

شاہد کو امريکہ آۓ بيس سال ہوچکے ہيں ۔ شاہد کےدو بيٹے ہيں جو اپنے اپنے گھروں ميں آباد ہوچکے ہيں اور وہ اپني بيوي کيساتھ اپني زندگي کے دن ہنسي خوشي گزار رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کي زندگي ايک نيا موڑ ليتي ہے۔ ايک دن وہ اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگا رہا ہوتا ہے کہ اس کا دوست عامر سب کو ايک مسلہ بتاتا ہے اور اس کا حل پوچھتا ہے۔ عامر کہتا ہے کہ ايک بيس سالہ لڑکي مصيبت ميں ہے اور کسي سہارے کي تلاش ميں ہے۔ وہ جب سے امريکہ آئي ہے جيل ميں ہے اور اس کي رہائي اسي وقت ممکن ہے جب کوئي اس کے ساتھ شادي کرلے۔ اس کا دنيا ميں کوئي نہيں ہے۔ ايجنيٹ اس کو دھوکے سے امريکہ لے کر آتے ہيں کہ اس کے حسن کو بيچ کو مال بنائيں گے۔ خدا کا کرنا يہ ہوتا ہے کہ سمگلروں کا گروہ پکڑا جاتا ہے اور وہ لڑکي بھي جيل چلي جاتي ہے۔ دوستوں ميں کوئي بھي اپنے گھر والوں سے بگاڑ کر اس لڑکي کي مدد کرنے کو تيار نہيں ہوتا۔

شاہد گھر جاکر اپني بيوي سے مشورہ کرتا ہے اور اس سے مدد مانگتا ہے۔ دونوں کے دل ميں ہمدردي کا جزبہ جاگتا ہے اور وہ پلان بناتے ہيں کہ شاہد کي بيوي پاکستان چلي جاۓ گي اور بعد ميں شاہد اس کو کورٹ ميں طلاق دے کر دوسري شادي کرلے گا۔

شاہد کے پلان کے مطابق اس کي شادي بيلا سے ہوجاتي ہے اور وہ اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔ پہلے تو لڑکي کو ديکھ کر اس کے ہوش اڑ جاتے ہيں کيونکہ خدا نے کہيں بھي اس کي شکل بنانے ميں کوئي کسر نہيں چھوڑي ہوتی ۔ شاہد اس کے ساتھ جب باہر نکلتا ہے تو گورے بھي بيلا کورک رک کر پوچھتے ہيں کہ کيا وہ ماڈل گرل ہے۔ شاہد کے دوست اس کي قسمت پر رشک کرتے ہيں اور بعض تو اندر ہي اندر جلنا بھي شروع کرديتے ہيں۔ بيلا اس دوران اپني ادھوری پڑہائي پر بھرپور دھيان ديتي ہے اور دن رات اپنا مستقبل بنانے کيلۓ وقف کرديتي ہے۔ وقت پر لگا کر اس طرح اڑتا ہے کہ تين سال پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں۔گرین کارڈ کیلۓ ضروری ہے کہ میاں بیوں تین سال تک اکٹھے رہیں اور ایک گھر میں رہیں۔ شاہد کے دوست اس دوران کئ دفعہ شاہد سے اس کي اولاد کے بارے ميں پوچھتے ہيں مگر شاہد ہر بار يہي جواب ديتا ہے کہ ابھي اللہ کو منظور نہيں ہے۔

 شاہد کي کوشش سے بيلا کو آخرکار گرين کارڈ مل جاتا ہے اور وہ اپني پڑھائي مکمل کرکے ڈاکڑ بن جاتي ہے۔ اتنا عرصہ ساتھ رہنے کي وجہ سے شاہد بيلا کو اندر ہي اندر پيار کرنے لگتا ہے مگر وہ اس کا اظہار نہيں کرتا۔

 ايک دن بيلا ہسپتال سے گھر واپس آتي ہے اور شاہد کے پاس بيٹھ جاتي ہے۔ شاہد معمول کے مطابق اس کو کن انکھيوں سے ديکھ رہا ہوتا ہے کہ بيلا اسے مخاطب کرتي ہے۔ وہ شاہد کا پہلے تو شکريہ ادا کرتي ہے کہ اس نے اپني وقعت سے بھي بڑھ کر اس کيلۓ قرباني دي اور اس کيلۓ وہ کچھ کيا جو شائد اس کے حقيقي رشتہ دار بھي نہ کرسکتے۔ شاہد کے گھر وہ اس کي بيوي بن کر رہي مگر شاہد نے اس دوران اس کو ايک بار بھي چھوا تک نہيں اور وہ اتني ہي پاکباز ہے جتني شادي سے پہلے تھي۔ وہ شاہد سے کہتي ہے کہ اب وہ اپنے پيروں پر کھڑي ہوچکي ہے اور اکيلي زندگي بسرکرنے کے قابل ہو چکی ہے۔ وہ شاہد سے درخوست کرتي ہے کہ وہ اسے آزاد کردے۔شاہد يہ سن کر سکتے ميں چلا جاتا ہے کيونکہ اتنا عرصہ بيلا کے ساتھ رہنے کے بعد اس کو بیلا سے انسیت کچھ زیادہ ہی ہوچکی ہوتی ہے۔ وہ معصومیت سے بیلا سے پوچھتا ہے کیا ہم صدا ایسے ہی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ بیلا اپنے محسن کا دل بھی توڑنا نہیں چاہتی اور اسے چھوڑنا بھی چاہتی ہے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ وہ شاہد کی پہلی بیوی کا حق مزید نہیں مار سکتی۔ جب وہ فیصلہ نہیں کرپاتی تو وہ رونا شروع کردیتی ہے۔ شاہد سے اس کا رونا دیکھا نہیں جاتا اور وہ اسے طلاق دے کر پاکستان اپنی پہلی بیوی کے پاس چلا جاتا ہے۔

ابھی شاہد کو پاکستان گۓ زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ہر ماہ اسے امریکہ سے ایک معقول رقم ملنا شروع ہوجاتی ہے جس کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوتا۔

اب جب یہ عورت اسے ملتی ہے تو اسے بتاتی ہے کہ وہی اسے رقم ہرماہ امریکہ سے بھجیتی رہی ہے۔ بیلا اس کے عظیم احسان کو کبھی فراموش نہیں کرپاتی اور اپنے دل کی خلش مٹانے کیلۓ یہ ذریعہ اپناتی ہے۔ بیلا کا بیٹا بھی شاہد کو بتاتا ہے کہ شائد ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن  ماں اس کا ذکر اپنے خاوند یا بچوں سے نہ کرتی ہو۔

اب جب بیلا کو شاہد کے بیٹے کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ بسترِ مرگ پر ہے تو اس سے رہا نہ گیا اور وہ اسے آخری بار ملنے پاکستان چلی آئی۔ بیلا امریکہ میں اب  شاہد کے نام سے ہسپتال چلا رہی ہے اور انسانیت کی خدمت اسی طرح کررہی ہے جس طرح شاہد نے اس کی۔ 

نوٹ – گزري رات ہم نے خواب ميں ديکھا کہ کہ ايک جوان لڑکي ہم سے بچھڑنے کي اجازت مانگ رہي ہے اور ہم اس سے التجا کر رہے ہيں کہ وہ ہميں چھوڑ کر نہ جاۓ۔ جب وہ رونا شروع کرديتي ہے تو ہم اس کي بات مان کر کورٹ ميں جاتے ہيں اور عليٰحدگي کے کاغزات پرابھی دستخط کرتے ہي ہيں کہ ہماري آنکھ کھل جاتي ہے۔ پھر اس خواب کے ارد گرد ہم کہاني ترتيب دينے ميں ایسے مصروف ہوجاتے ہيں کہ نيند ہي نہيں آتي۔ وہ کہاني يہ تھی۔