پہلی قسط پڑھنے کیلیے یہاں پر کلک کیجیے۔

جب منظور شاہ کو معلوم ہوا کہ اس کا بيٹا قتل ہو گيا ہے تو اس نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کيا۔ بيٹے کے قتل پر افسوس کرنے کيلۓ آنے والوں کے سامنے اس نے جزبات سے لبريز ايک ذاکر کي طرح تقرير کي اور سب کو رلا ديا مگر خود نہيں رويا۔ اس نے يہي کہا کہ وہ اس قتل کو خدا کے انصاف پر چھوڑتا ہے۔ وہ تھانے قتل کي رپورٹ بھي درج کرانےنہ گيا۔ جب پوليس کا ايک اعلي افسر اس کے پاس آيا اور اس سے پوچھا کہ وہ قتل کا مقدمہ کس کے خلاف درج کروانا چاہتا ہے۔ تو اس نے جواب ديا کہ وہ دنيا ميںاپنے بيٹے کے قتل کا مقدمہ درج نہيں کراۓ گا کيونکہ وہ خدا کي عدالت ميں يہ مقدمہ پہلے ہي درج کروا چکا ہے۔ اگلے دو ماہ ميں اس نے چن چن کر اپنے بيٹے کے قاتلوں کو قتل کرواديا اور اس کا ايک بال بھي کوئي بيکا نہ کر سکا۔
منظورشاہ اپني زندگي کے آخري دور ميں داخل ہوچکا تھا اور تب تک اس نے وہ سب کچھ حاصل کر ليا تھا جس کي ايک انسان کو ضرورت ہوتي ہے مگر وہ اپني اکلوتي اولاد کو موت سےنہ بچا سکا۔ منظور شاہ نے کروڑوں کي سرکاري املاک پر قبضہ کيا ہوا تھا۔ اربوں روپوں سے اپني تجورياں بھري ہوئي تھيں اور بدمعاشي کے زور پر لوگوں پر راج کر رہا تھا۔ اس تمام عرصے کے دوران اس کي چوہدريوں کے ساتھ دشمني چلتي رہي مگر وہ اس کو راستے سے نہ ہٹا سکے۔ جس طرح اس نے بڑے بڑے لوگوں کو قتل کروايا اور جس طرح اس نے عام لوگوں کو حراساں کر کے رکھا ہوا تھا لوگ يہي سمجھتے تھے کہ وہ زيادہ عرصہ زندہ نہيں رہ سکے گا مگر اس نے بہت لمبي عمر پائي
چند سال قبل کي بات ہے کہ اس کي ايک پارٹي سے چھن رہي تھي اوروہ بہت محتاط اور محفوظ طريقے سے سفر کررہا تھا۔ ليکن جيسا کہ اس نے اپنے بيٹے کا مقدمہ خدا کي عدالت میں درج کروايا اور اس کے نام پر خود قاتلوں کو کيفرِ کردار تک پجنچايا اسي طرح اب اس کے اپنےجرموں کا مقدمہ خدا کي عدالت میں پيش ہوچکا تھا اور بس فيصلے کا انتظار تھا۔ ايک دن وہ کسي عزيز کي فاتحہ سے اپنے باڈي گارڈز کے گھيرے ميں واپس آرہا تھا کہ ايک جيپ اس کي کار کے برابر آئي اور اس ميں سوار قاتلوں نے اس پر کلاشنکوف کے ايسے برسٹ مارے کہ اس کے باڈي گارڈوں کو سنبھلنے کا موقع ہي نہ ملا اور وہ اپنے باڈي گارڈز اور ڈرائيور سميت اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے ساتھ قتل ہونے والا ڈرائيور اس کے پرانے پارٹنر ڈار کا بيٹا تھا۔
منظور شاہ نے جو اتني خطرناک زندگي گزاري اور اتني لمبي عمر پائي اس کي وجہ اس کا شاطر دماغ تھا۔ حالانکہ وہ ميٹرک فيل تھا مگر بلا کا ہوشيار اور جہانديدہ آدمي تھا۔ اس نے کبھي کھل کر کسي سے دشمني نہيں کي اور ہميشہ اعتماد ميں لے کر يعني پيچھے سے وار کيا۔
منظور شاہ کے دور میں بہت سارے غريب اور کمي کمين شيعہ بنے کيونکہ اسطرح وہ اپنے آپ کو باوا جي کا آدمي کہلواتے اور کمي کمين کا ليبل اپنے اوپر سے اتارنے کي کوشش کرتے۔ اس کي موت کے بعد اس کے خاندان کے وہ ٹھاٹھ نہ رہے جو اس کے ساتھ تھے۔ اس کي ايک وجہ يہ تھي کہ اس نے اپنا جانشين تيار نہ کيا اور جس بيٹے پر اميد تھي وہ اپني ناداني کي وجہ سے پہلے ہي دنيا سے رخصت ہو چکا تھا۔
ختم شد