معاشی بحران یعنی ریسیشن کی تعریف ڈکشنری میں یہ ہے کہ جب ترقی تنزلی میں بدلنا شروع ہو جائے یا امریکی زبان میں جب دو کوارٹر مسلسل جی ڈی پی دس فیصد سے زیادہ تنزلی کی طرف چل پڑے۔ امریکہ میں جی ڈی پی یعنی گروس دومیسٹک پروڈکٹ یا چیزوں کی پیداوار ہر سہ ماہی میں ناپی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں سالانہ ناپی جاتی ہے۔ امریکی زبان میں ہی یہ معاشی بحران یعنی ریسیشن معاشی بدحالی یعنی ڈیپریشن میں تب بدلتا ہے جب ریسیشن ایک سال یا اس سے زیادہ جاری رہے۔ ان دونوں کا فرق ایک بلاگر نے بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

پاکستان چونکہ بادشاہ ملک ہے اسلیے یہاں معاشی بحران یا معاشی بدحالی کی طرف حکمران دھیان بہت کم دیتے ہیں۔ وہ بحران اور بدحالی کے دنوں میں بھی غیرملکی دوروں پر جاتے رہتے ہیں۔ پچھلے ایک ماہ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ کو معاشی بحران پر ترجیح دی ہے اور اسی لیے حکومت نے دو ہفتے پارلیمنٹ کی ان کیمرہ بریفنگ پر بھی ضائع کئے ہیں۔ اس معاشی بحران کے دنوں میں بھی حکومت بجلی کی قیمتیں تب تک بڑھاتی رہی جب تک عوام سڑکوں پر نہیں نکل آئے۔

ابھی بھی ہمارے غیرمنتخب مشیر خزانہ سے صدر زرداری تک تمام حکمران معاشی بدحالی سے بچنے کیلیے صرف اور صرف دوسرے ملکوں اور خیراتی اداروں سے امداد کی اپیلیں کر رہے ہیں جو کہ کر ٹھکرائی جا رہی ہیں کیونکہ ہم دہشت گردی ختم کرنے کیلیے ان ی مرضی کیمطابق اقدامات نہیں کر رہے۔

حکومت نے ابھی تک نہ معاشی ماہرین مشاورت کی دعوت دی ہے، نہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا ہے اور نہ ہی ہنگامی بنیادوں پر کوئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ، یورپ اور انڈیا وغیرہ نے ریسیشن کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ ابھی بھی امریکی صدر دنیا کی بڑی معیشتوں کے ملکوں کے سربراہان کا اجلاس بلا رہے ہیں اور ہم فقیروں کی طرح دوسرے ملکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

ابھی جب عوام ریسیشن سے مجبور ہو کر سڑکوں پر نکل آئے تو تب حکومت نے بجلی کے نرخوں میں رعایت دینے کی ہمت کی ہے اور وہ بھی عوامی احتجاج کے تشدد میں بدلنے جانے اور اپنی حکومت جانے کے خوف سے۔

ہم بادشاہ لوگ بنیوں کی طرح ایسے بحرانوں سے نکلنے کیلیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے پاس جاتے ہیں اور اس سے قرض اٹھا لیتے ہیں۔ یہ قرض پھر بڑھ کر اتنا ہو جاتا ہے کہ ہمارے بجٹ کا بیشتر حصہ اس کے سود کی ادائیگی پر خرچ ہو جاتا ہے۔ ابھی روپے کی قیمت کی کمی کی وجہ سے ہمارا غیرملکی قرضہ اٹھائیس سو بلین سے بڑھ کر اڑتیس سو بلین روپے سے زیادہ ہو گیا ہے۔

ہماری حکومت اگر مخلص ہوئی تو پھر وہ پلاننگ کمیشن کا اجلاس بلائے گی، ماہر معاشیات کی خدمات حاصل کرے گی، برے وقت میں عملی بچت کر کے عوام کو بچت پر اکسائے گی اور اس معاشی بحران کو سب سے زیادہ اہمیت دے گی۔ مگر ہمارے خیال میں ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔