فاٹا یا قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کیخلاف جنگ لڑی جارہی ہے۔ اس جنگ میں دو کی بجائے تین فریق شامل ہیں۔ دو فریق شدت پسند اور ہماری فوج ہے اور تیسرا فریق نیٹو نہیں بلکہ امریکی فوج ہے۔ ہم فوج کی قبائلی علاقوں میں کاروائیوں پر بھی خوش نہیں ہیں، مگر ہماری نظر میں امریکی فوج کا اس جنگ میں ملوث ہونے کا کوئ جواز نظر نہیں آتا۔ جو کام امریکہ کر رہا ہے وہ کام اگر ہم خود کر رہے ہیں تو پھر امریکہ نہ جانے کیوں خواہ مخواہ بدنامی کما رہا ہے۔ اس سے تو یہی لگتا ہے کہ امریکہ کو ہم پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر اسے ہم پر اعتماد نہیں ہے تو پھر ہم خود فوجی کاروائی کیوں کر رہے ہیں؟ ہمیں چاہیے کہ امریکہ کو کھلا ہاتھ دے دیں اور خود اسلام آباد میں بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہیں۔ جنگ اخبار کے مطابق اب تک قبائلی علاقوں میں چالیس سے زائد میزائل حملوں میں 650 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔

اب تک ان میزائل حملوں پر عوامی ردعمل نظر نہيں آیا، کیا ہم لوگ سمجھتے ہیں کہ قبائلی علاقے پاکستان میں شامل نہیں ہیں یا پھر جو کچھ ہو رہا ہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں؟

کیا گورنمنٹ سمجھتی ہے کہ ہر میزائل حملے پر احتجاج ہی کافی ہے یا پھر وہ ان حملوں کی درپردہ حمایت کر رہی ہے اور عوام کی اشک شوئی کیلیے ایوانوں میں قراردادیں منظور کر کے بری الذمہ ہو جاتی ہے؟

کیا ان حملوں پر خاموشی کی یہ وجہ ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ساتھ نہیں یا ہمارے علاقے میں نہیں ہو رہا؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ قبائلیوں کسیاتھ ہو رہا ہے وہ مستقبل میں ہمارے ساتھ نہیں ہو گا؟

کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ایک طاقتور ملک کا کمزور ملک پر میزائل حملہ جائز ہے اور کیا ہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول کو مانتے ہوئے بے خود کو بے بس سمجھ رہے ہیں؟

ہمارا یقین ہے کہ جس طرح بجلی کے بحران کیخلاف عوام نے احتجاج کر کے حکومت کو بل کم کرنے پر مجبور کر دیا ہم اسی طرح ملک میں ہر جگہ پرامن احتجاج کرکے میزائل حملے رکوا سکتے ہیں۔ اگر ہم احتجاج نہیں کر رہے تو امریکہ جو کچھ کر رہا ہے کیا ہم اس کی ایسے ہی حمایت کر رہے ہیں جیسے ہماری حکومت؟