ہمارے معاشرے ميں پہلے ہي مولوي کي کوئي عزت نہيں تھي کہ اب ميراتھن دوڑ کي وجہ سے داڑھي رکھنا مسلمانوں کيلۓ مصيبت بن گئ۔ پوليس نے دوڑ سے ايک دن قبل لاہور آنے والے راستوں کي ناکہ بندي کي اور داڑھي والے اصحاب کو چن چن کر بسوں اور ويگنوں سے اتار کر لاہور داخل ہونےسے روک ديا گيا۔

ہم جانتےہيں کہ امام مسجد کو معاشرے ميں روٹي مانگنے والے سے زيادہ عزت نہيں دي جاتي۔ بڑے بڑے فيصلوں سے مولويں کو دور رکھا جاتا ہے اور جہا ں کہيں مولوي مشورہ دينے کي کوشش کرے اسے يہ کہ کر چپ کرا ديا جاتا ہے کہ مولوي تجھے دنيا داري کا کيا پتہ تو اپنے حجرے ميں جا اور اللہ اللہ کر۔ چوہدري اور وڈيرے مولوي کو کمي کمين سمجھتے ہيں اور صرف جھوٹ موٹ کي مزہبي رسموں کي ادائيگي کيلۓ مولوي کو زحمت ديتے ہيں۔

جب سے حکومت نے روشن خيالي کي مہم چلائي ہے اور دہشت گردي کے خاتمے کے زور پر مغربي حمائت حاصل کي ہے داڑھي رکھنا بہت بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ پہلے جو لوگ فيشن کے طور پر داڑھي رکھا کرتے تھے وہ بھي اب کلين شيو نظر آتے ہيں۔

جب اسلام اپنے عروج پر تھا تو اس وقت امامت حاکمِ وقت کرايا کرتے تھے اور حکومت کے سارے فيصلے جمعہ کے خطبات ميں ہوا کرتے تھے۔ ليکن جب اسلام کو زوال آيا تو سب سے پہلا عتاب اماموں پر ہي نازل ہوا۔ ان کي جو عزت ايک قاضي کے طور پر معاشرے ميں تھي اس کو ختم کرنے کيلۓ اس سے سارے عہدے چھين لۓ گۓ اور اسے صرف نکاح اور جنازہ پڑھانے پر لگا ديا گيا۔، اس کي تنخواہ اتني کم کردي گئ کہ وہ روٹياں مانگنے پر مجبور ہوگيا۔ اسلام کے عروج کے دور میں مولويوں نے بڑي بڑي ايجادات کيں اور علوم کے خزينے بانٹے مگر جب مسلمان معتوب ہوۓ تو اماموں سے علم چھين ليا گيا اور انہيں صرف قرآن حفظ کرنے پر لگا ديا گيا۔ اب ہماري مسجدوں ميں تقريبأ سو فيصد امام ان پڑھ ہيں اور ان کو صرف اسلام کے بنيادي ارکان کي سدھ بدھ ہے۔ جو حافظِ قرآن ہيں ان کو ترجمہ اور تفسير نہيں آتي اور وہ طوطے کي طرح رٹہ لگا کر قرآں سنا کر تراويح پڑھاتے ہيں۔

جب يورپ نے مسلمانوں کو ٹوٹے ٹوٹے کر کے آزاد کرنا شروع کيا تو ان پر اپني مرضي کے حاکم مسلط کرديۓ اور اس پر طرہ يہ کہ ان ملکوں کي افواج کي تربيت يورپي انداز پر کرني شروع کردي۔ فوج کو دين سے دور رکھا گيا اور اس کا سارا نظام خود غرضي اور لادينيت کي بنياد پر رکھا گيا۔ وہ اسلۓ کہ اگر بھولے سے لوگ يورپ کي عطا کردہ جمہوريت کے طريقے سے اسلام پسندوں کو منتخب کرليں تو ان کا راستہ فوج کي مداخلت سے روک ديا جاۓ۔

ابھي تک مسلمان کتنے ہي ملکوں ميں تقسيم ہيں اور وہ مسلماني کي بنياد پر نہي بلکہ علاقائي بنياد پر پہچانے جانے پر فخر محسوس کرتے ہيں۔ اب جب يورپ نے ديکھا کہ مسلمانوں نے يورپ کا رخ کرليا ہے اور انہوں نے اپني تعليم کے بل بوتے پر يورپي ملکوں ميں اثرورسوخ بڑھانا شروع کر ديا ہے تو ستمبر گيارہ کا بہانہ بنا کر ان پر يورپ کے دروزے بند کرنے شروع کرديۓ ہيں۔ اب يورپي يونيورسٹيوں ميں اتنے طالبعلم نہيں آرہے جتنے اس سے پہلے آتے تھے۔

يورپ ميں داڑھي والوں پر خصوصي نظر رکھي جاتي ہے اور ائرپورٹوں پر ان کي خصوصي چيکنگ ہوتي ہے۔ ليکن ہمارے خيال ميں يورپ بھولا ہے کيونکہ جتنا ايک اسلامي ذہن والا شخص ايماندار اور محب ِوطن ہوسکتا ہے کوئي دوسرا کلين شيو شخص نہيں۔  ہم پتہ نہيں کيوں يہ بھول جاتے ہيں کہ جس نے تخريب کاري کرني ہوگي وہ بھيس بدل کر آۓ گا۔ ليکن يورپ کي عقل پر ايسا پردہ ڈال ديا گيا ہے کہ اسے مسلمانوں سے خوف آنے لگا ہے۔

 اگر آج يورپ کو سافٹ اميج دکھانے کيلۓ ميراتھن دوڑ کا اہتمام کيا گيا ہے تو کل شراب عام کر کے اميج اور سافٹ بنانے کي کوشش کي جاۓ گي۔ ڈريۓ خدا کے عزاب سے جب موت آۓ گي اور ہميں اپنے اعمال کا حساب دينا پڑے گا۔ ليکن ادھر تو لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو آخرت پر يقين ہي نہيں ہے اسلۓ وہ اس دنيا کي خوشياں سميٹنے کي کوششوں ميں مصروف ہيں۔

آئيں دعا کريں کہ خدا ہم سب کو سيدھے راستے پر چلاۓ اور پھر ہم ميں سے متقي لوگوں کو ہمارا حکمران بناۓ۔ آمين