جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ میڈیا اور ٹرانسپورٹ نے دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ اب آپ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں ایک دن میں پہنچ جاتے ہیں اور میڈیا آپ کو دنیا کے کونے کونے سے منٹ منٹ کی خبریں پہنچا رہا ہے۔ اتنی ترقی کیساتھ ساتھ لوگوں کو غلام بنانے کا رواج بھی بین الاقوامی سرحدیں عبور کر چکا ہے۔

پہلے لوگ جسمانی غلام بنایا کرتے تھے پھر بنیے میدان میں آگئے اور انہوں نے لوگوں کو معاشی طور پر غلام بنانا شروع کر دیا۔ لوگ تب بھی بیوقوف تھے اور اب بھی بیوقوف ہیں۔ تب لوگ اپنی زمینیں رہن رکھ اپنے بال بچوں کی شادیوں، مقدموں اور پیشیوں جیسے غیرترقیاتی اخراجات کیلیے رقم ادھار لیا کرتے تھے۔ اب حکومتیں اپنے لوگوں کو غلام رکھ کر غیرترقیاتی اخراجات کیلیے قرضے لیتی ہیں۔ پہلے ہر گاؤں میں ایک آدھ بنیا ہوا کرتا تھا اب دنیا میں ایک آدھ بنیا ہے جسے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کا نام دیا گیا ہے۔

یہ بنیا بھی ترقیاتی اخراجات کی بجائے غیرترقیاتی اخراجات کیلیے قرضے دینا پسند کرتا ہے۔ اسےصرف اپنے سرمائے کی فکر ہوتی ہے اور اس بات کی پرواہ نہیں کہ قرضہ لینے والے ملک کے عوام پر کیا گزرے گی۔ حکومتیں اس بنیے کیلیے کام کرتی ہیں یعنی وہ قرضے لینے اور ان کی بمع سود واپسی کی ضمانت دیتی ہیں۔

شاہراہوں پر ٹول ٹیکس، اشیائے صرف پر جنرل سیلز ٹيکس، پراپرٹی ٹيکس، انکم ٹيکس، گاڑیوں کی خریدوفروخت پر ٹیکس اور اسی طرح کے دوسرے ٹیکس آئی ایم ایف کے قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلیے اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اس خدمت کے بدلے آئی ایم ایف کا بنیا سرکاری کارندوں کو کچھ عوامی ٹیکسوں کی رقم خرد برد کرنے کی اجازت بھی دے دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بنیے کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ملکوں میں کرپشن کتنی ہے اسے صرف اس بات سے سروکار ہے کہ حکومتیں کتنے زیادہ ٹیکس بڑھا کر اس کا سود ادا کرتی ہیں۔

اگر حکومتوں کی عوام سے ہمدردی یا مخلص پن دیکھنا ہو تو پھر یہ دیکھیے کہ انہوں نے اپنے دور میں کتنے غیرترقیاتی کاموں کیلیے قرضے لیے اور کتنے ترقیاتی کاموں کیلیے۔ اس فارمولے کی بنیاد پر موجودہ حکومت کی عوامی ہمدردی جانچنے کیلیے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت نے پچھلے ہفتے جو قرضہ آئی ایم ایف سے لیا ہے وہ کسی ترقیاتی کام کیلیے نہیں لیا بلکہ سرکاری اخراجات چلانے کیلیے لیا ہے۔ آئی ایم ایف کو سود کی ادائیگی کی ضمانت کے طور پر حکومت نے مزید ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا ہو گا۔ تیل کی قیمتوں میں معمولی کمی اسی معاہدے کی ایک شق ہو گی۔ اس کے علاوہ بھی منافع بخش صنعتوں کی نجکاری بھی معاہدے کا حصہ ہو سکتی ہے۔