امریکن سی آئی اے کے پاکستان میں پہلے حکمران ایجنٹ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم تھے  اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ چند ایک استثناء چھوڑ کر ایک سے بڑھ کر ایک نہلے پہ دہلا پاکستان اور پاکستانی عوام کی قسمت کا مالک بنا۔ مگر جس شخص نے پاکستان میں اپنے گھٹیا ترین مفادات کو ریاستِ پاکستان کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہوئے قوم کو امریکن چنگل میں پھنسایا، جس سے آج تک قوم کی خلاصی نہیں ہوئی اور ہر آنے والا دن ہماری بربادیوں اور جگ ھنسائی کا سامان لے کر آیا، اس شخص کا نام بلا جواز نوابزادہ لیاقت علی خان تھا۔ جس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ سے دھوکا کیا۔ قادیانی تحریک کو مضبوط کیا۔ پاکستان کی تمام کلیدی عہدوں پہ قادیانوں کو مقرر کیا۔ ادروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا ستم ایجاد کیا۔ نوابزادہ کی وجہ سے ملک صرف ایک قراردادِ مقاصد پہ ہی چلتا رہا متواتر اٹھ سال تک پاکستان کے آئین بننے دیئے جانے میں پس و پیش کی کیونکہ یہ طے تھا کہ آئین بننے کے فوراً بعد انتخابات ہونگے ۔ اور نوابزادہ اور اس کے ساتھی امراء کو علم تھا کہ ان کا تو اپنا حلقہ ِ انتخاب تک پاکستان میں نہیں تو انھیں ممبر تک کون چنے گا۔ جبکہ دوبارہ سے وزیر اعظم مملکت خداد پاکستان بننے کے لیے ایک لمبا سفر تھا جس میں نوابزادہ کے دوبارہ وزیراعطم بننے کے امکانات صفر تھے۔ حالانکہ انکی اعلٰی ظرفی ہوتی کہ وہ آئین بنوا کر فوری طور پہ عام انتخابات کروا دیتے اگر ان میں اہلیت ہوتی تو قوم انھیں منتخب بھی کر لیتی ورنہ ایک طرف ہو کر ساری عمر کے لیے تحریکِ پاکستان کے لیے ایک رہنماء کی حیثیت کا کریڈٹ کیش کرواتے رہتے مگر یہ تب ہوتا جب آدرش اور اصول اعلٰی اور ارفع ہوں جبکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیماری کے دوران کہا تھا کہ، ُ ُلیاقت میرے مرنے کامنتظر ہے،، ۔ کہ کب قائدِ اعظم فوت ہوں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اور لیاقت علی خان مسندِ اقتدار پہ قبضہ جمائے۔

تنہا ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار نہیں تھا ۔ اس کا بیج لیاقت علی نے بیجا تھا جس نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو آنے بہانے سے صرف اردو کو ملک کے دونوں بازؤں کے لیے واحد قومی زبان قرار دیے جانے کا رستہ دکھایا اور مِس گائیڈ کیا۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں ہی اردو کی بجائے مشرقی پاکستان میں بنگلہ کو قومی زبان قرار دنے کا مطالبہ سامنے آچکا تھا۔ چونکہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے نزدیک اپنی مادری زبان اردو ہی افضل تھی لہٰذاہ نوابزادہ نے اردو کے لیے ناجائز ضد کی وجہ سے کچھ سالوں بعد ہی مشرقی پاکستان کے سانحے کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔

سخت محنت کی وجہ سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ فراش ہوئے تو انھیں دارلحکومت کراچی سے زیارت جیسے صحت افزء مقام پہ لے جایا گیا کہ شاید یوں وہ صحت یاب ہو جائیں۔ جہاں جانے سے پہلے ہی نوابزادہ موصوف عملی طور پہ کاروبارِ ریاست پہ قبضہ جما چکے تھے اور زیارت جانے کے بعد تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ مکمل طور پہ ہر چیز سے عملاً کٹ گئے اور مسندِ اقتدار پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا۔اور مشرقی پاکستان میں اردو کو قومی زبان دینے کے قضیے پہ احتجاج سامنے آچکا تھا اور اگر نوابزادہ لیاقت علی خان زیارت میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ عیادت کے لیے نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے گئے تو بقول فاطمہ جناح کہ ابھی قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کتنا دم باقی ہے اور کیا آیا قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ اس بار جانبر ہو سکیں گے یا نہیں۔

نوابزادہ لیاقت علی خان حد درجہ خود پسند شخص تھا ۔ جب نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کے وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبہ کیا جو اس وقت پورا کرنا چندا مشکل نہیں تھا کہ ایک پوری ریاست پاکستان سے الحاق کر رہی تھی مگی نوابزادہ لیقت علی خان کو یہ بات اس لئیے نہیں گوارہ تھی کہ ہم مطلوبہ بندوقوں کا بندوبست نہیں کر سکتے تھے بلکہ محض اس لیے کہ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لیے اقتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا اور ایک خود پسند نوابزادے نے وہی کیا جو اس کی خود پسندی نے اسے کہا ۔ لیاقت علی خان نے نواب آف جونا گڑھ کو صاف انکار کردیا۔

قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو جب زیارت سے واپس کراچی لایا گیا تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کو ہوئی جہاز سے لانے کے لیے جس ایمبولنس کو بیجھا گیا اس ایمبولنس میں پٹرول نہیں تھا وہ گھنٹوں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ایمبولنس کے اندر اسٹریچر پر سخت گرمی میں پٹرول کے انتظار میں پڑے رہے اور فاطمہ جناح اپنے قریب الموت شدید علیل بھائی کے سر سے مکھیاں ہٹاتی رہیں اور اس دوران نوابزادہ لیاقت علی خان سرخ قالینوں پہ سلامی لے رہے تھے۔ کچھ محقیقین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو زہر دلوایا گیا۔ واللہ علم الصواب۔
آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایسے حالات میں ریاست کے امور پہ عملاً کس کا قبضہ تھا۔؟

یہ پاکستان کی تاریخ کے وہ المناک پہلو ہیں جنہیں میں نے بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور جن پہ ہر دردمند پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے محض اقتدار پہ قابض ہونے کے لیے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی امریکن سی آئی اے کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات استوار کر لینا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے ۔ ایسی غداری ہے جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے اور ہم ساری دنیا میں تماشہ بنے ہوئے ہیں ۔

ہماری طرف سے ضروری وضاحت۔
ہم اردو کو تہہ دل سے اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔
ہم مہاجر یا غیر مہاجر کی تقسیم یا تفریق پہ قطعی یقین نہیں رکھتے۔
ہمارے نزدیک پاکستان کے تمام شہری قابلِ صد احترام ہیں۔
اوپر دی گئی جملہ تفضیلات محض تاریخی طور پہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے پڑہی سمجھی جائیں۔ اور ان سے کسی کی دل آَزاری مقصود نہیں۔

خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

اس تحریر کا جواب محترم اجمل صاحب نے تفصیل سے اپنے بلاگ پر دیا ہے۔ یہ تحریر آپ یہاں پر پڑھ سکتے ہیں۔