محرم کے شروع ہوتے ہی شادیوں کا سلسلہ ایک ماہ کیلیے منقطع ہو گیا۔ محرم سے پہلے پتہ نہیں کیوں شادیوں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ کیا پورے سال میں یہی مہینہ ہمیں شادیوں کیلیے ملتا ہے۔

شادیوں کے اخراجات اب کافی بڑھ چکے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے والدین کی شادی کے وقت کا رجسٹر دیکھا جس میں نیوندرے کی رقم آٹھ آنے سے لیکر ایک روپے تک درج تھی۔ نیوندرا شادی میں رشتہ داروں کی طرف سے دی گئی رقم کو کہتے ہیں۔ پھر ہمارے دور میں ہر شادی کی دعوت پر بلائے گئے مہمان ایک ایک سو روپیہ دینے لگے۔ اس وقت شادی ھال ابھی نہیں بنے تھے اور زیادہ تر شادی کے کھانے گلیوں میں ٹینٹ لگا کر کھلائے جاتے تھے جن پر لاگت کم آتی تھی۔ پھر شادی ھال کیساتھ ساتھ جب مہندی کے دو دن بھی شادیوں کا حصہ بن گئے تو ان دعوتوں میں مدعو افراد تین تین دفعہ نیوندرے دینے لگے۔

آجکل سنا ہے ولیمے پر جانے کا ریٹ عام قصبوں میں پانچ سو روپے اور بڑے شہروں میں ایک ہزار سے پانچ ہزار روپے ہے۔ بعض اوقات تو شادیوں اور ولیمے کی دعوتیں اتنی زیادہ ہو جاتی ہیں کہ عام آدمی ان سے پناہ مانگنے لگتا ہے۔ وہ پناہ اسلیے نہیں مانگتا کہ اسے کھانا کھانا پڑے گا بلکہ کھانے کا بل چکانا پڑے گا۔ محرم کے آتے ہی لوگوں کو سکھ کا سانس ملتا ہے اور باہر کھانا کھانے کے اخراجات ختم ہو جاتے ہیں۔

پاکستان میں شادی کے فنکشن کیلیے اب چار دن مقرر ہو چکے ہیں۔ دو دن لڑکے لڑکی والوں کی مہندی، ایک دن برات اور ایک دن ولیمہ۔ پھر ان فنکشنز میں اب رات کو جگراتے لوگوں کیلیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ ہر فنکشن رات دس بجے شروع ہو کر صبح گئے تک جاری رہتا ہے۔ جبکہ امریکہ کینیڈا میں اکثر دونوں پارٹیاں ملکر شادی کا ایک ہی دن فنکشن کرتی ہیں جسے وہ شادی اور ولیمہ کی دعوت کا نام دے دیتے ہیں اور اس طرح ایک ہی دن میں فارغ ہو جاتے ہیں۔ دراصل ایک تو یورپ میں لوگ چار دن چھٹی نہیں کر سکتے اور دوسرے چار دن کے اخراجات عام آدمی کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ امیر آدمی بھی ایک ہی فنکشن پر اکتفا کرتے ہیں مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کا اہتمام کسی بڑے ہوٹل میں کرتے ہیں۔

پاکستان میں بھی جہاں عام آدمی کیلیے ون ڈش شادی کا قانون ہے وہیں شادی کے فنکشن کیلیے بھی ایک دن کا قانون لاگو کر دینا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شادی بیاہ اور جینے مرنے پر سادگی کو فروغ دے۔ اس مقصد کیلیے ہمیں ابھی حال ہی میں دو مواقع میسر آئے جو ہم نے گنوا دیے۔ ایک بینظیر کی برسی جس پر ان کی قبر پر گل پاشی کسیساتھ ساتھ کھانوں پر بے پناہ دولت خرچ کی گئی اور دوسرے سابق وزیر خورشید قصوری کے بیٹے اور موجودہ پی پی پی کے وزیر کی بیٹی کی شادی کا فنکشن تھا جس میں ون ڈش کی خلاف ورزی کی گئی اور فنکشن کی وڈیو ٹی وی پر دکھا کر غریبوں کی غربت کا مذاق اڑایا گیا۔

اگر حکومت چاہے تو موجودہ معاشی بدحالی میں اپنے اخراجات کم کر کے عام آدمی کیلیے مثال بن سکتی ہے مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔