ٹوپی ڈرامہ سے مراد کرنا کرانا کچھ نہیں اور نمبر بنانے کیلیے شور مچانا ہوتا ہے۔ لیکن ہم آج آپ کو ایک حقیقی ٹوپی ڈرامے کی روداد سنانے جا رہے ہیں اور وہ بھی تصویر کیساتھ۔ اب اس تصویر میں آپ نے ہماری تصویر پہچاننی ہے۔ بوجھو تو جانیں۔

ہوا اس طرح کہ ہم نو کلاس فیلو اپنی کلاس بلکہ اپنے کیمپس میں انتہائی شرارتی مانے جاتے تھے۔ ایک دن شمیم خان کے کھوکھے پر بیٹھے ہم رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ ہمارے دماغ میں ایک شرارتtopi سوجھی۔ دراصل ہمارے ایک استاد جو ہم سے ایک سال سینئر تھے ہمیں ٹیکنیکل ڈرائنگ پڑھاتے تھے۔ انہوں نے قائد اعظم کی ٹوپی پہنی ہوتی تھی اور وہ ٹوپی ڈرامہ اس طرح کرتے تھے کہ آپ کیساتھ انتہائی شفقت کیساتھ پیش آتے مگر جب امتحانات میں نمبر دینے کی باری آتی تو آنکھیں ماتھے پر رکھ لیتے تھے۔ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ہم نے ان کا نام “ٹرکی” رکھ دیا۔

ہم نے دوستوں کو تجویز کیا کہ کیوں ناں ہم استاد ٹرکی کی طرح کی ٹوپیاں خریدیں اور ایک دن ایک ایک کر کے ان کی کلاس میں داخل ہوں۔ ہم نے پنڈی صدر سے ہوبہو ان کی طرح کی ٹوپیاں خریدیں۔ اس وقت ہم نے دس روپے فی ٹوپی ادا کیے۔

ایک دن ٹوپیاں پہن کر لائن میں ہم سب دوست کلاس کی طرف چل پڑے۔ پہلے تو جو جو ہمیں دیکھتا خوب ہنستا۔ پھر جب ہم کلاس روم کے سامنے پہنچے تو کلاس شروع ہو چکی تھی۔ پہلے مولوی الطاف، پھر ناصر خان، طارق مصطفیٰ، افضل، آصف اعوان، افضل چوہدری، طاہر فریدی، شاہد منیر، شیرخان باری باری کلاس میں داخل ہونے لگے۔ پہلے داخلے پر کسی نے توجہ نہ دی۔ دوسرے لڑکے کے داخلے پر کلاس کے کان کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد کی انٹریوں پر کلاس نے خوب ہنس ہنس کر داد دی۔

استاد ٹرکی نے اپنے ہوش و ہواس قائم رکھے اور اس مذاق کو سنجیدگی سے لیا۔ انہوں نے مولوی الطاف سے پوچھا کہ تم لوگوں نے ٹوپیاں کیوں پہنیں۔ مولوی الطاف نے جواب دیا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جس کا سر ننگا ہوتا ہے اس کے سر سے اللہ کی رحمت کا سایہ اٹھ جاتا ہے۔ استاد ٹرکی بہت متاثر ہوئے انہوں نے ہمیں اپنے آفس میں بلایا اور سب کو چائے کیساتھ بسکٹ بھی پیش کیے۔

اس ٹوپی ڈرامے کی استاد ٹرکی نے ہمیں یہ سزا دی کہ سب کے سیمسٹر ختم ہو گئے مگر ہمیں ڈرائنگ کی دس اسائنمنٹ بنانے پر لگا دیا جو ہم لوگوں نے ایک ہفتے میں ختم کیں اور تب گریجوایٹ ہوئے۔