اگر کسی ناتجربہ کار کو جہاز، بس یا ٹرین کا کنٹرول دے دیا جائے تو وہ اپنی جان کیساتھ ساتھ دوسروں کی جان بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی بھی محکمے میں سینئرز کو سپرسیڈ کر کے جونیئر کو انچارج بنا دیا جائے تو وہ محکمہ تنزلی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایسے ہی موقعے پر کہتے ہیں “بندر کے ہاتھ میں ماچس دے دینا”۔

کرکٹ کے کھیل میں بھی اگر جونیئر کو کپتان بنا دیا جائے تو میچ جیتنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ تازہ مثال انگلینڈ کرکٹ کے دو دن رہنے والا کپتان پیٹرسن اور پاکستانی ٹيم کے کپتان شعیب ملک کی ہے۔ ہمارے خیال میں کرکٹ ٹيم کا کپتان اسے ہی بننا چاہیے جو اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب ہو تا کہ اس کی بزرگی اور تجربے سے پوری ٹيم فائدہ اٹھا سکے۔ اسی طرح کپتانی کیلیے آدمی کا بارعب اور ڈسپلن کا پابند ہونا ضروری ہے یعنی کپتان ٹيم میں ڈسپلن قائم رکھ سکے اور کوئی اس کی حکم عدولی نہ کر سکے۔ کپتان کیلیےضروری نہیں کہ اسے بدیشی زبان پر عبور حاصل ہو ہاں اگر وہ انگریزی جانتا ہے تو پھر اس کیلیے زیادہ اچھا ہے۔ ورنہ وہ اپنی زبان میں تب تک بات کرتا رہے جب تک اسے انگریزی پر عبور حاصل نہ ہو جائے۔ انگریزی پریس کانفرنس میں تو کام آ سکتی ہے مگر میچ جتوانے میں مدد نہیں دے سکتی

ہمارے ہاں ان اصولوں کو پس پشت ڈال کر کپتانی اپنے من پسند اور جھولی چہک لوگوں کو دینے کا زیادہ رواج ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہماری ٹیم تسلسل کیساتھ بہتر کارکردگی کا مضاہرہ نہیں کر پا رہی۔

شعیب محمد کو یونس خان، محمد یوسف اور دوسرے سینئر کھلاڑیوں کی موجودگی میں کپتان بنایا جانا نہ صرف پاکستان کیساتھ زیادتی تھی بلکہ شعیب کیساتھ بھی۔ وہ کپتانی کا بوجھ برداشت نہ کر سکا جس کی وجہ سے پاکستان کیساتھ ساتھ اس کا اپنا وقار بھی خاک میں ملا۔

شیعب ملک کو کپتانی سے ہٹا کر یونس خان کو کپتان بنانے کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ امید ہے یونس خان سینئر ہونے کی بنا پر ٹیم میں ڈسپلن اور اتحاد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔