ہمارے ايک دوست جو ذات کے جولاہے ہيں اور ايک چھوٹے سے قصبے ميں رہتے ہيں ان کي بھتيجي کا ہاتھ ايک خاندان جو ذات کا ترکھان ہے نے مانگا اور دوست کي مرضي کے خلاف اس کي بھابي نے اس رشتے پر ہاں کردي۔ حالانکہ لڑکي والوں کا خاندان اس رشتے پر راضي نہيں تھا۔ لڑکي کا والد بھي فوت ہوچکا ہے اور اس کي ايک بہن اور ايک بھائي ہے۔ 

دراصل ايسا ہوا کہ لڑکا لڑکي کے بھائي کا دوست تھا اور وہ لڑکي والوں کے گھر آتا جاتا تھا۔ اس دوران اس کي لڑکي سے آنکھ لڑ گئي اور اس نے والدين سے درخواست کي کہ وہ لڑکي کا رشتہ مانگيں۔

اب تازہ خبر يہ ہے کہ لڑکي کے بہنوئي نے يہ دھمکي دي ہے کہ اگر يہ رشتہ ہوا تو وہ اپني بيوي کو طلاق دے دے گا۔ لڑکي کا ايک ہي بھائي ہے جو اس رشتے پر راضي نہيں تھا اور اب وہ بھي اس بات پر مضر ہے کہ اگر رشتہ نہ توڑا گيا تو وہ ماں اور بہن کو قتل کردے گا۔

اب مسٔلہ يہ ہے کہ کيا يہ رشتہ جو صرف ذات برادري کے فرق کي وجہ سے نبھتا نظر نہيں آرہا اس کوکيسے پائہ تکميل تک پہنچايا جاۓ۔

 ہم مانتے ہيں کہ يہ کوئي انوکھا مسٔلہ نہيں ہے بلکہ ہر گاؤں اور قصبے ميں اب بھي ذات برادريوں کو سب سے زيادہ اہميت دي جاتي ہے ۔ جبکہ شہروں کے لوگ اب ان چکروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کي کوشش کررہےہيں۔ 

ہم نے تو سادہ سا حل اس مسٔلے کا پيش کيا ہے کہ ماں اور لڑکي جو اس رشتے پر بضد ہيں  کو منايا جاۓ کہ وہ خاندان کے جھگڑے سے بچنے کيلۓ اس رشتے سے انکار کردیں۔ دوسرا طريقہ جو ہے تو صحيح مگر بہت ہي خطرناک معلوم ہوتا ہے اور وہ ہے کہ لڑکي کي شادي اس کي پسند کے مطابق کردي جاۓ اور اس کے نتائج کو ديدہ دليري سے برداشت کيا جاۓ۔ جہاں تک ہمارے قانون کي بات ہے وہ اس معاملے ميں بے بس ہے اور اگر لڑکي لڑکا کورٹ ميں شادي کربھي ليتے ہيں تب بھي ان کي جان کي کوئي گارنٹی نہيں۔