کراچی کے بم دھماکے نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اتنا بڑا سانحہ بھلاۓ نہیں بھولے گا مگر افسوس یہ ہے کہ ہم اس سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھیں گے اور چند دنوں کے بعد اپنی اپنی زندگیوں میں پھر مگن ہوجائیں گے۔ بلکہ ایک دوسال بعد تو کسی کو یہ بھی یاد نہیں رہے گا کہ کبھی یہ حادثہ ہوا بھی تھا۔ خوابِ غفلت میں سوۓ ہونے کی یہی سب سے بڑی نشانی ہے کہ ہم معمولاتِ زندگی کو نہ بدلین اور  احساسات و جزبات سے بلکل عاری ہوجائیں۔اب ہم میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ہم تب تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھ سکیں جب تک حکومت اس سانحے کے دوبارہ ہونے کو ناممکن بنا کر نہ دکھا دے۔ حکومت کو بھی معلوم ہے کہ اب قوم میں کوئی دم خم نہیں رہا اس لۓ وہ بھی مرنے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کو براۓ نام معاوضہ دےکر اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاۓگی۔ فرض کریں اگر یہی سانحہ کسی حکومتی اہلکار کے ساتھ پیش آتا تو نتیجہ دنوں میں نکل آتا۔  صدر مشرف پر قاتلانہ حملے کی مثال ہمارے سامنے ہے اس میں ملوث لوگوں کو سزا بھی ہوچکی ہے مگر اس سانحے کی تفتیش سالوں تک جاری رہے گی اور پھر کوئی نتیجہ نکالےبغیر داخل دفتر کردی جاۓ گی۔ آخر میں سارا الزام بیرونی ہاتھ پر دھر دیا جاۓ گا مگر بیرونی ہاتھ کی نشاندہی نہیں کی جاۓگی۔ ہماری یہی قوم سے التجا ہے کہ بنی اسرائیل کی طرح ساری باتیں خدا پر ہی نہ چھوڑ دو بلکہ پہلے اس کے دیۓ ہوۓ ہاتھ پاؤں کو استعمال کرو اور پھر اس سے امید لگاؤ۔