آج ٹورانٹو کینیڈا میں ہم نے نمازِ جمعہ ادا کی جہاں کینیڈا میں چھٹی کی وجہ سے نمازیوں کا اتنا رش تھا کہ ہمیں اوپر والے ہال میں پہنچنے میں دس منٹ لگے۔ بقول انتظامیہ کے سات ہزار سے زیادہ لوگوں نے آج جمعہ کی نماز میں شرکت کی۔
امام صاحب کی یہ بات ہمیں پسند آئی کہ انہوں نبی پاک صلعم کی ولادت کے دن کے حساب سے مسلمانوں کے حالاتِ حاضرہ کو بیان کر کے سامعین کے ضميروں کو جگانے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کہ نبی پاک صلعم کی پیدائیش بھی سوموار کے دن، مدینہ سے ہجرت بھی سوموار کے دن، نبوت کا اعلان بھی سوموار کے دن اور آپ کی وفات بھی سوموار کے دن۔ ان کے کہنے کا مطلب یہی تھا کہ اب مسلمان صرف ایک دن نبی پاک کی ولادت  منا کر سمجھتے ہیں کہ سارے فرائض ادا ہوگۓ  مگر ان کی سیرت پر عمل کرکے ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کرتے۔
انہوں نے ایک اور بات بڑی خوبصورت بیان کی کہ نبی پاک صلعم کی ساری زندگی ایک اچھے انسان کا ٹریڈ مارک تھی اور لوگ ان پر آنکھیں بند کرکے یقین کرتے تھے۔ موجودہ دور میں جیسے جاپانی ٹریڈمارک کو مانا جات ہے۔ ٹويوٹا، ہنڈا، توشیبا اور سوزوکی کا ٹریڈ مارک ساری دنیا میں ایک اعلٰٰٰی معیار کی نشاندہی کرتا ہے اور لوگ جاپانی اشیاء کی بہترین کوالٹی کی اہمیت سے آگاہ ہیں اسی طرح پرانے دور کے مسلمانوں کے ٹریڈ مارک کی بھی اپنی ایک پہچان تھی۔ مگر اب مسلمانوں میں چھپی کالی بھیڑوں، غدار حکمرانوں اور دشمن کے میڈیا نے مسلمانوں کے ٹریڈ مارک کو ایک گالی بنا کے رکھ دیا ہے۔ اب جہاں بھی مسلمانوں کا نام لیا جاتا ہے ایک جاہل اور گنوار قوم کے نام سے لیا جاتا ہے۔ ہم اپنی عادتوں اور اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ساری دنیا میں بدنام ہوچکے ہیں اور اس کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے جان بوجھ کر ہمیں تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے۔ امام صاحب کی یہ مثال بھی دل پر اثر کرنے والی تھی کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد صرف ایک سو بیس جاپانی باہر سے تعلیم حاصل کرکے جب اپنے وطن واپس لوٹے تو انہوں نے بیس سال کے اندر اندر جاپان کو ترقی کی اس منزل پر پہنچا دیا جہاں اس کی کارکردگی کا ٹریڈ مارک ساری دنیا میں مشہور ہوگیا۔ دوسری طرف مسلمان جب تعلیم حاصل کرکے واپس لوٹےتو حکمرانوں نے انہیں اپنی کرسی کیلۓ ایک خطرہ سمجھا ۔ کئ کو تو انہوں نے جیل میں بھی ڈال دیا۔ اکثریت کو معاشرے کا حصہ ہی بننے نہیں دیا اور اس طرح صرف اپنی ذات کے تحفظ کیلۓ پوری قوم کو انپڑھ بناۓ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے مسلمان ایجادات سے دور ہیں اور کوئی بڑا کارنامہ ان کے نام سے منسوب نہیں ہے۔ ساری ٹیکنالوجی پر غیروں کی اجارہ داری ہے بلکہ یہاں تک کہ جو مڈل ایسٹ سے تیل نکلتا ہے وہ بھی غیروں کی مشینری کا مرہونِ منت ہے۔ اور اس تیل کی کمائی بھی اپنی قوم کیلۓ استعمال کرنے کی بجاۓ غیروں کے بنکوں میں جمع کراکے ان کی اکانومی کو سپورٹ کیا ہوا ہے۔ اگر آج عرب امریکہ اور یورپ کے بنکوں سے ساری تیل کی کمائی نکلوا لیں تو ان کی معشیت کا بیڑہ غرق ہوجاۓ۔ مگر مسلمان اب اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ وہ اب یہ ابھی اپنی مرضی سے نہیں کرسکتے۔ بلکہ کبھی انہوں نے ایسی کوشش کی بھی تو وہ اپنی اصل کمائی سے بھی محروم کر دیۓ جائیں گے۔
ترقی کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ یہودیوں کی طرح سر نیچے کر کے خوب محنت کی جاۓ اور تب تک محنت کی جاۓ جب تک  اس قابل نہ ہوجائيں کہ من مانی نہ کرسکیں اور  مسلمانوں کا ٹریڈ مارک پھر سے اعلٰٰی معیار کی مثال نہ بن جاۓ۔