انتخابات سے صرف ديڑھ سال قبل شيخ رشيد کي وزارت کي تبديلي کئ اشارے دے رہي ہے۔ يہ بات  تو سمجھ ميں آتي ہے کہ پيپلزپارٹي پيٹرياٹ کے ايک رکن کو ان کي اپني پارٹي سے غداري کے صلے ميں وزارت سے نوازا گيا ہے مگر شيخ صاحب کي وزارت بدل کر انہيں سزا دي گئ ہے يا پھر ريلوے کے لوہے سے نوازا گيا ہے يہ معلوم نہيں ہوسکا۔ حالانکہ شيخ صاحب کو اب تک جنرل مشرف کا دستِ راست سمجھا جاتا رہا ہے اور شيخ صاحب نے بھي اب تک مشرف صاحب کا حقِ نمک ادا کيا ہے۔ سب سے پہلے تو شيخ صاحب نے نواز شريف سے غداري کي، اپنے ايک اور ساتھي جاويد ہاشمي کو سزا دلوائي اور اس کے بعد ڈاکٹر شير افگن کي طرح منہ پھٹ ہونے کي وجہ سے بحيثيت وزيرِ اطلاعات حکومت کي ہرزہ سرائي ميں کوئي کسر نہ چھوڑي۔ ان کي جگت بازيوں نے کسي کو بھي نہيں بخشا بلکہ ان کے اپنے ساتھي بھي ان کي اس عادت کي وجہ سے ان سے پناہ مانگتے رہے۔

وزارت بدلنے کے بعد شيخ صاحب نے دو بلکل الگ باتيں کي ہيں۔ ايک طرف وہ کہتے ہيں کہ وزارت بدلنے کي وجہ انہيں معلوم نہيں اور پھر کہتے ہيں کہ وہ ريلوے کي وزارت کے پہلے سے خواہش مند تھے۔ اب عام آدمي بھي جانتا ہے کہ اتنا بااثر وزير اگر اپني خواہش من ميں دباۓ رکھے يہ ممکن نہيں۔ان دوباتوں ميں کوئي ايک تو ضرور جھوٹ ہے۔ ان کي وزارت ان کو وجہ بتاۓ بغير بدلي گئ کہيں اس کا مطلب يہ تو نہیں کہ اب ان کي پہلے والي اہميت نہيں رہي۔

شيخ صاحب کي وزارت بدلنے کي کئي وجوہات ہوسکتي ہيں۔

 ان کا منہ پھٹ ہونا جس کي وجہ سے مشرف حکومت کو اگلے انتخابات جيتنے ميں دقت پيش آ سکتي ہے۔ 

چوہدري برادران سے شيخ صاحب کي ان بن يا پھر چوہدري برادران کو اگلے انتخابات ميں شيخ صاحب سے خطرہ۔

يہ بھي ہوسکتا ہے کہ شيخ صاحب کو ريلوے ميں بھيج کر مال بنانے کا موقع فراہم کيا گيا ہو تاکہ ان کي جانثاري کي قيمت اگلے انتخابات سے پہلے ہي ادا کردي جاۓ

شيخ صاحب ريلوے ميں مال تو بنائيں گے مگر اب پسِ پردہ چلے جائیں گے۔ يہ بلکل ايسا ہي ہوا ہے جيسے پيپلز پارٹي پيٹرياٹ کے ايک ممبر کو وزارتِ داخلہ سے ہٹا کر وزيرِ کشمير بنا ديا گيا تھا۔

حکومت نے پيپلز پارٹي پيٹرياٹ کے ممبران کو جہاں ان کي غداري کا صلہ ديا وہاں دو منہ پھٹ ارکانِ پارليمنٹ ڈاکٹر شير افگن اور شيخ رشيد کو بھي خريد ليا تاکہ پارليمينٹ ميں کوئي شور مچانے والا نہ رہے اور حکومت چين کي نيند سوئي رہے۔ ايک اور منہ پھٹ رکن جاويد ہاشمي جب قابو نہ آسکے تو انہيں جيل بھيج ديا گيا۔

اب شيخ صاحب ديکھيں پسِ پردہ کيا کيا سازشيں کرکے اپني سياست کا لوہا منواتے ہيں۔ شیخ صاحب ان چند سياستدانوں ميں سے ہيں جن کو کسي پارٹي کي ضرورت نہيں ہوتي بلکہ وہ خود پارٹي ہوتے ہيں۔ مگر وزارت کي تبديلي اس بات کا بھي اشارہ دے رہي ہے کہ کہيں حکومت نے ان کے غرور کو نيچا دکھانے کا پروگرام تو نہيں بنا ليا۔

يہ سارے خدشے اور وسوسے اگلے انتخابات کے وقت ہي دور ہوں گے اور تبھي پتہ چلے گا کہ شيخ صاحب کي وزارت بدلنے کے پيچھے کيا راز تھا۔