وکلاء تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں افتخار چوہدری آج سے بحال ہو کر چیف جسٹس کی کرسی پر براجمان ہو چکے ہیں۔ اگلے تین چار ماہ میں چیف جسٹس کی بحالی کی وجہ معلوم ہو جائے گی اور ان کی منزل کا پتہ سب کو مل جائے گا۔

اگر تو چیف جسٹس صاحب کسی ڈیل کے ذریعے بحال ہوئے ہوں گے تو پھر وہ حکومت کے کسی منفی اقدام پر سوموٹو ایکشن نہیں لیں گے۔

اگر وہ مسلم لیگ ن کے ہتھے چڑھ گئے اور انہوں نے ہیرو بننے کی کوشش کی تو پھر وہ تمام پرانے مقدمات یعنی گمشدہ پاکستانیوں، لال مسجد پر ریڈ، نو مئی اور بارہ اپریل کی فائلیں دوبارہ کھول کر اپنی ملازمت کی مدت کا دورانیہ مختصر کر لیں گے۔

اگر چوہدری افتخار کی نیت ٹھیک ہوئی تو وہ ضرور آئین توڑنے والوں کا محاسبہ کرنے کی سعی کریں گے مگر اس کے بعدلے یا تو وہ ہیرو بن جائیں گے یا پھر ان کی جان چلی جائے گی۔ موجودہ حکومت اور اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ کبھی نہیں چاہیں گے کہ وہ جنرل مشرف کو آرمی ہاؤس خالی کرنے کا آرڈر دیں، ان کا نام ای سی ایل کی لسٹ میں ڈال دیں اور ان کو آئین توڑنے کے جرم میں سزا دیں۔ آج تک نہ کسی جنرل کو سزا ہوئی ہے اور نہ جنرل مشرف کو ہو گی اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ چیف جسٹس کی یہ آرزو پوری ہو۔ اگر انہوں نے ملکی مفاد کو زیادہ عزیز سمجھا تو پھر خفیہ ہاتھ ان کو جنت رسید کر دے گا۔

زیادہ امکان یہی ہے کہ خفیہ ڈیل کی وجہ سے چیف جسٹس صاحب اپنی پروفائل لو رکھیں گے اور حکومت اور اس کے پیچھے خفیہ ہاتھ کیساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے۔

ویسے ہماری بات اگر چیف جسٹس افتخار صاحب مانیں تو انہیں عوامی فلاح کے مقدمات کو نپٹانے کی طرف دھیان دینا چاہیے تا کہ عام پبلک کو سستا اور فوری انصاف مل سکے۔ اس طرح وہ حکومت کو ناراض بھی نہیں کریں گے اور عوام میں مقبول بھی ہوں گے۔ اس طرح وہ ایک ایسی مثال قائم کریں گے جس کی رہتی دنیا تک یاد عوام کے دلوں میں رہے گی۔ اگر وہ عام عوامی مسائل کو حل کرنا شروع کر دیں یعنی مظلوموں کی داد رسی کو اپنا شعار بنا لیں تو ان کے ماتحت کام کرنے والے جج بھی ان کی تقلید کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اس وقت عوامی مسائل میں زمینوں پر ناجائز قبضے، پولیس کی ناجائز سختیاں، چوریاں ڈاکے، رشوت ایسے مسائل ہیں جو عا آدمی کو براہ راست متاثر کر رہے ہیں۔

چلیں ہم انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ چیف جسٹس بحالی کے بعد کس کی آس پوری کرتے ہیں یعنی عوام کی، مسلم لیگ ن کی یا پھر خفیہ ہاتھ کی؟