آج شاعر مشرق علامہ اقبال کی اکہترویں برسی خاموشی سے گزر گئی۔ حکومتی لیول پر صرف صدارتی بیان داغ کر اپنی جان چھڑا لی گئی۔ نہ کسی حکمران نے مزار پر حاضری دی اور نہ ہی کوئی بڑی تقریب منعقد کی گئی۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ ہماری موجودہ حکومت کا مزاج علامہ اقبال کے مزاج سے نہیں ملتا اور کہیں علامہ اقبال کا انقلابی انداز عوام کے ضمیر نہ جگا دے۔ حیرانی کی بات ہے ہر چھوٹے موٹے واقعے پر بیان چھوڑنے والے اپنے الطاف بھائی بھی خاموش رہے۔

جس دور میں ہم لوگ سکول میں پڑھا کرتے تھے اسمبلی میں تلاوت قرآن کے بعد علامہ اقبال کی نظم “لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” کورس کی شکل میں گائی جاتی تھی۔ یو ٹیوب نے جہاں ہمیں بہت ساری نادر ویڈیوز اور آڈیوز دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے وہیں پر یہ نظم سن کر ہماری پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ساری نظم سمجھ کر ہمارا انقلابی بننا تو بہت دور کی بات تھی اس وقت ہمیں اس نظم کے پہلے فقرے کی ہی سمجھ نہیں آتی تھی۔ اس وقت ہم “لب” کو “لپ” پڑھا کرتے تھے۔ نہ کسی استاد نے جماعت میں اس نظم پر روشنی ڈالی اور نہ ہی اسمبلی میں اس کا مفہوم بیان کیا گیا۔ بس ہم ہائی سکول پاس کرنے تک طوطے کی طرح رٹے رٹائے فقرے روزانہ دہراتے رہے۔

اب دیکھیں ناں علامہ اقبال اگر فرماتے ہیں کہ

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اور سوچیں کہ کیا موجودہ حکومت کا طرز زندگی اس سے میل کھاتا ہے۔ کیا آج کے حکمرانوں میں خودی کی ذرا سی بھی رمق پائی جاتی ہے۔ جس طرح بہت پہلے کسی نے اس شعر کی پیروڈی اس طرح بنائی تھی

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضائی کہاں ہے

ہم موجودہ حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے اس شعر کی پیروڈی کچھ اس طرح کرتے ہیں

خودی کو نیچے رکھ اتنا کہ ہر فیصلے سے پہلے

تو امریکہ سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

خدا علامہ اقبال کو جنت میں جگہ دے اور ہمیں ان کے اقوال پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین