ہم محلے کے لوگ مہينے ميں ايک دفعہ ايک دوسرے کے گھر باري باري ڈنر پر اکھٹے ہوتے ہيں تاکہ ہم ميں بھائي چارہ کي فضا قائم رہے اور وہ اجنبيت نہ ہو جو اب ہر بڑے شہر کا وطيرہ بن چکا ہے جہاں اگر پڑوس ميں مرگ ہوجاۓ تو آپ کو پتہ ہي نہيں ہوتا۔

آج ايک صاحب نے بتايا کہ ايک تنظيم نے دنيا کے امير ترين حکمرانوں کي لسٹ ترتيب دي ہے جس ميں پہلے بڑے نام مسلمان حکمرانوں کے ہيں اور ان ميں سب سے پہلے نمبر پر سعودي عرب کے شاہ عبداللہ ہيں۔ جو لوگ تازہ تازہ سعودي عرب سے ہوکر آۓ ہيں انہيں معلوم ہوا گا کہ امريکي فوج کے وہاں جانے پر اور عراق کي پہلي جنگ ميں سعودي سپورٹ کے بعد اس ملک کے وہ حالات نہيں رہے جو پہلے تھے۔ اس سے پہلے سعودي عرب دنيا کا واحد ملک ہوتا تھا جو مقروض نہيں تھا۔ مگر عراقي جنگ کے اخراجات نے اس ملک کو بھي مقروض بنا ديا ہوا ہے اور جہاں کوئي بھي ٹيکس نہيں ہوا کرتا تھا وہاں ٹيکس تو کيا پارکوں کے داخلے پر بھي ٹکٹ لگا ديۓ گۓ ہيں۔ اب جس ملک نے پچھلي دو دہائيوں ميں اتني تنزلي ديکھي ہو تو اس ملک کے حکمران کا امير ترين ہونا دوغلي پاليسي لگتي ہے جو اسلام کے بنيادي عقائد سے متسادم ہے۔

 اب اچھے وقتوں کے چند واقعات سنيں اور اندازہ لگائيں کہ ہم مسلمانوں کي تنزلي کي کيا وجوہات ہيں۔ ہمارے محلے کے دوست احباب اچھے وقتوں ميں سعودي عرب ميں ملازمت کي وجہ سے دس پندرہ سال قيام کر چکے ہيں اور ان کے تجزيات اونچ نيچ کي تفريق کے بارے ميں دل ہلا دينے والے ہيں۔

ايوب صاحب فرمانے لگے کہ ستر کي دہائي ميں حکومت نے پينشن کا اعلان کيا اور اس فنڈ ميں ملازم اور مالک دونوں نے اپنا خصہ ادا کرنا شروع کرديا۔ جس دن پہلے آدمي کو پينشن ملنے کا دن تھا شاہ نے قانون ميں ترميم کرکے خارخيوں کو اس سے الگ کر ديا۔

اعظم صاحب کے بقول ادارے سب کو قمري مہينوں سے تنخواہ ديا کرتے تھے۔ ايک دن شاہ کو کسي نے بتايا کہ قمري مہينوں کي بجاۓ اگر شمسي مہينوں کے حساب سے تنخواہ دي جاۓ تو ملازميں کو دس دن اور کام کرنا پڑے گا اور اس طرح اداروں کو فائدہ ہوگا۔ مگر شاہ نے جو فرمان جاري کيا وہ صرف خارجيوں کيلۓ تھا۔ اس طرح سعودي قمري مہينے سے تنخواہ لينے لگے اور خارجي شمسي مہينے سے۔

شاہد صاحب نے ايک دن ڈرائيونگ کے دوران ايک عربي کے ساتھ سرخ لائٹ کراس کرلي۔ اسي عربي نے عجمي کو روک کر پوليس بلا لي۔ عجمي نے کہا کہ اس عربي نے بھي قانون کي خلاف ورزي کي ہے تو عربي کہنے لگا کہ ميں تو مقامي ہوں مگر تم نے قانون کيوں توڑا۔

ہميں اپنے نبي صلعم کي حديث ياد ہے کہ اسلام ميں کسي عربي کو عجمي پر فوقيت حاصل نہيں ہوگي اور مسلمان صرف تقوٰي کي بنياد پر پرکھے جايا کريں گے۔ مگر ہم نے اس اہم اصول کر ترک کرديا کيونکہ اس پر عمل کرنے سے ہماري امارت اور طاقت ميں فرق آجاتا۔ اب اگر ہم اس طرح کے نسلي امتياز کو نہيں چھوڑيں گے تو ذليل ہي ہوں گے۔

اور تو اور کعبہ کے اندر جانے کيلۓ بھي شرط يہ ہے کہ آپ حکمران ہوں۔ وہاں بھي سعوديوں نے تقوٰي کي بجاۓ طاقت اور امارت کو ہي عظمت کيلۓ پيمانہ مقرر کيا ہوا ہے۔ اگر سعودي عرب ميں اتني نسلي تفريق ہے تو پھر دوسرے مسلمان ملکوں ميں کيا حالات ہوں گے۔ اسلۓ اگر ہم نے دينا پر حکومت کرني ہے تو پہلے اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا اور اسلام کے بنيادي اصولوں پر سختي سے عمل کرنا ہوگا۔

 اللہ ہميں انصاف کي توفيق عطا فرماۓ اور اگر طاقتور ہيں تو طاقت کو اللہ کے اصولوں کي حکمراني کيلۓ استعمال کرنے کي ہمت دے۔