کچھ عرصے  سے حزبِ اختلاف والے اگلے اليکشن کے بائيکاٹ کي بات کر رہے ہيں۔ پتہ نہيں وہ يہ دھمکي کس زعم ميں اور کسے دے رہے ہيں۔ اگر انہيں يہ زعم ہے کہ عوام ان کا ساتھ ديں گے تو وہ اس غلط فہمي نہ رہيں۔ جو عوام ان کي کال پرسڑکوں پر نہيں آسکتي وہ ان کے بائيکاٹ پر کبھي بھي اپني جان عزاب ميں نہيں ڈالے گي۔ ہوسکتا ہے اپوزيشن يہ دھمکي موجودہ حکومت کو دے رہي ہو اور اگر يہ بات ہے تو پھر بھي اپوزيشن غلط فہمي ميں مبتلا ہے۔ موجودہ حکومت کبھي بھي اس دھمکي سے مرعوب نہيں ہوگي۔

 پچھلي دفعہ جب اليکشن ہوۓ تو اپوزيشن نے پہلے انتجابات کے بائيکاٹ کي بات کي مگر پھر ان کي عقل نے کام کيا اور وہ اليکشن ميں حصہ لے کرمناسب تعداد ميں اسمبليوں ميں پہنچ گۓ۔ يہ الگ بات ہے کہ ان کي بے اتفاقي اور چند گندے انڈوں کي وجہ سے سرکاري مسلم ليگ حکومت بنانے ميں کامياب ہوگئ اور پھر بعد ميں حکومت نے دھوکے سے آئين ميں ترميم بھي منظور کرالي۔ ليکن ان ناکاميوں کے باوجود اپوزيشن نے اليکشن ميں حصہ لے کر بہت کچھ پايا اور پارہي ہے۔ اپوزيشن کي آواز سوئي ہوئي قوم تک پہنچ رہي ہے اور حکومت کو بھي کھلا ہاتھ نہيں دے رہي۔ اس کي ايک صوبے میں پوري حکومت اور دوسرے میں آدھي حکومت ہے اور اسے اب تک پتہ چل جانا چاہيۓ کہ حکومت ميں رہ کر ہي عوام کي خدمت کي جاسکتي ہے اگر حکمران کي نيت ميں خلل نہ ہو تو۔

اس دفعہ اگر اپوزيشن نے اليکشن کا بائيکاٹ کيا تو وہ سرا سر خسارے ميں رہے گي اور جو تھوڑا سا رابطہ اس کا عوام سے ہے وہ بھي کھو دے گي۔ دوسري طرف حکومت کو کھلي چھٹي مل جاۓ گي اور وہ اگلے پانچ سال بلا خوف و خطر حکمراني کے مزے لوٹتي رہے گي۔

ويسے تو ہميں پورا يقين ہے کہ اتنا عرصہ صوبائي حکومتوں ميں رہنے اور حزبِ اختلاف کي سربراہي کا مزہ چکھنے کے بعد کبھي بھي اليکشن کا بائيکاٹ نہيں کرے گي۔ ليکن اگر اپوزيشن کے ذہن ميں کوئي غلط فہمي ہے تو وہ نکال دے اور ہمارا اپوزيشن کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ الکيشن کا بائيکاٹ نہ کرے بلکہ متحد ہو کر انتخابات ميں حصہ لے اور حکومت کو کلين بولڈ کر دے چاہے بعد ميں آپس ميں بندر بانٹ کرتي رہے۔

 کبھي کبھي ہمارے ذہن ميں يونہي خيال آتا ہے کہ اپوزيشن کي ساري جماعتيں يعني مسلم ليگ نواز شريف، پيپلز پارٹي، متحدہ مجلس عمل اور انصاف پارٹي آپس ميں مل جائيں اور ايک پليٹ فارم سے انتخابات ميں حصہ لے کر فوجيوں کو ناکوں چنے چبا ديں۔ ايسا ہو گا نہيں ليکن اگر ايسا ہوجاۓ تو مزہ آجاۓ۔