آئيں آج يہ تجزيہ کرتے ہيں کہ اگلے ايک سال ميں کيا ہوگا۔ ہمارے خيال ميں مندرجہ ذيل خدشات ہماري تاريخ کا حصہ بننے والے ہيں اور ان اندازوں ميں سے ايک بھي پاکستان اور جمہوريت کيلۓ نيک شگون نہيں ہے۔

١۔ صدر اپنا انتخاب دوبارہ انہي اسمبليوں سے کرا ليں گے اور اس کے بعد اگلے انتجابات ميں حکومت کو اتني ہي سيٹيں مل جائيں گي جتني اب ہيں۔ اس دفعہ پي پي پي پيٹرياٹ والے مسلم ليگ ق کے کندھوں پر انتخاب جيتیں گے اوراس طرح ان کي اہميت پہلے سے کم ہو جاۓ گي۔ دھاندلي کے امکانات بھي کافي ہيں۔ اس دفعہ صدر کا سارا انحصار چوہدريوں کي سياسي بصيرت پر ہوگا۔

٢۔ صدر کے دوبارہ حلف اٹھانے سے پہلے ہي اپوزيشن جماعتيں اسمبليوں سے استعفے دے کر حکومت کيلۓ بحران پيدا کرنے کي کوشش کريں گي۔ صدر اس کي پرواہ کيۓ بغير باقي ماندہ اسمبليوں سے اپنا انتخاب کراکے جگ ہنسائي کا مؤجب بنيں گے۔ اس کے بعد انتجابات ميں حکومت ہر طرح کي دھونس دھاندلي سے انتخابات جيت لے گي۔

٣۔ اگر سارے حربے آزمانے کے بعد بھي صدر کي حمائيتي جماعت مسلم ليگ ق انتخابات ميں اکثريت حاصل نہ کرسکي تو پھر صدر ملک ميں مارشل لگانے سے بھي گريز نہيں کريں گے۔ کيونکہ ہماري اب تک کي تاريخ ميں سياسي بحرانوں ميں کسي فوجي سربراہ نے ہار نہيں ماني۔

٤۔ اگرعوام مہنگائي سے بہت زيادہ تنگ آگئي اور اپوزيشن ان  کو گليوں ميں لانے ميں کامياب ہوگئي تو ايوب دور کي ياد تازہ ہونے کے امکانات ہيں ليکن اس دفعہ کوئي بھٹو عوامي ليڈر نہيں بن پاۓ گا بلکہ فوج ہي برسرِاقتدار رہے گي۔

٥۔ بيروني طاقتيں اگر موجودہ صدر سے مايوس ہوگئيں تو وہ بھي اپوزيشن کي خفيہ حمائت کرنے لگيں گي اس طرح پاکستان ميں خانہ جنگي کي صورتحال پيدا ہوسکتي ہے مگر آخر میں فوج کو کچھ عرصے کيلۓ بيرکوں ميں واپس جانا پڑے گا تاکہ ان کي جان و مال محفوظ رہ سکے۔

ہمارے اندازوں ميں سب سے زيادہ امکانات اسي بات کے ہيں کہ اس دفعہ اپوزيشن آساني سے ميدان نہيں مار سکے گي اوران کي بے اتفاقياں موجودہ حکومت کے اقتدار کو طول ديۓ رکھيں گي۔ ايم ايم اے اور ايم کيو ايم کو اقتدار میں ان کا حصہ ملتا رہے گا اور بي بي اور مياں دونوں اپنا بڑھاپا ملک سے باہر ہي گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ نہ عوام ان کي کال پر سڑکوں پر آۓ گي اور نہ بي بيروني طاقتيں ان کي مدد کريں گي کيونکہ جتني آساني سے کام ايک ڈکٹيٹر سے ليا جاسکتا ہے اتنا ايک منتخب نمائيندے سے نہيں۔

 عوام اگر مزيد سوۓ رہنا چاہتي ہے تو پھر اقتدار کي دوڑ کے جھميلوں سے اپنے آپ کو الگ رکھے اور مہنگائي کي چکي ميں پستي رہے۔