آج بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق قبریں کھودنے والے ٹھیکیدار نے قبریں منتقل کرنے کے ٹھیکے میں کئی سو جعلی قبریں بنا کر رقم بٹوری اور بے ضمیری کی انتہا کر دی۔ اس نے یہاں تک کہ ایک مردے کی ہڈیوں کو کئی قبروں میں تقسیم کر کے بھی منافع کمایا۔
اس طرح کی جعلسازیاں بے ضمیروں کا شیوہ رہی ہیں۔ کچھ جعلسازیاں جانی نقصان کا سبب نہیں بنتیں مگر بے ضمیری میں نمبر ون ہوتی ہیں۔ ان جعلسازیوں میں جعلی اشیاء بنانا، پلاٹوں کو اپنے نام کرانا، پیروں کا رقم دو گنا کرنا، تعویز دھاگے کرنا، فال نکالنا، سرکاری رقم خردبرد کرنا سر فہرست ہیں۔ مگر کچھ جعلساز ایسے ہوتے ہیں جو منافع کمانے کیلیے انسانی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ ان میں سر فہرست لالچی ڈاکٹر کا مریض کا غلط علاج کرنا، جعلی ادویات بنانا، خوراک میں ملاوٹ کرنا، دھوکے سے انسان کے اعضا نکال لینا، دندان ساز کا ٹھیک دانت کی بھی بھرائی کر دینا، وغیرہ وغیرہ ہیں۔
جعلسازی میں ہمیں سب سے زیادہ چڑ ڈاکٹری کے پیشے سے غدادی سے ہے۔ جب دندان ساز آپ کے دانت کا علاج جان بوجھ کر لمبا کرتا ہے تا کہ اسے زیادہ رقم ملے چاہے اس کیلیے آپ کا دانت ہی بیکار کیوں نہ ہو جائے تو ہمیں بہت غصہ آتا ہے۔
جب ڈاکٹر جان بوجھ کر مریض کو سپیشلسٹ کے پاس نہ بھیجے تا کہ اس کا گاہک نہ جاتا رہے تو ہمیں اس بے ضمیری پر بہت دکھ ہوتا ہے۔
جب بدمعاش کسی غریب کے ساتھ ہاتھ کرے اور اس کو جمع پونجی سے محروم کر دے تو ہمیں اس کا زندہ ہونا زہر لگتا ہے۔
جب سرکاری کارندہ یا حکمران سرکاری خزانے پر ہاتھ صاف کرتا ہے تو وہ پوری قوم کیساتھ دھوکہ کرتا ہے۔ ہمارے بس میں ہو تو ایسے حکمران کو چوراہے میں پھانسی دے دیں۔
جب حکمران اپنے انسانوں کو بیچ کر رقم کمانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ایجینسی والے لوگوں کو غائب کر دیتے ہیں تو ہم بہت گھٹن محسوس کرتے ہیں۔
8 users commented in " بے ضمیروں کی جعلسازیاں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackافضل صاحب براہ کرم اپنے بلاگ پر یہ مضموں چھاپ دیں
کاش وقت سے پہلے کوئی سمجھ جائے۔ شکریہ
ُُُٓامریکی پینٹاگون کی ریزرو فوج، پاکستان انفینٹری ڈویژن یعنی ”افواج پاکستان“ سوات اور بونیر میں فوجی کاروائی کر کے کئی ہزار ”دہشت گردوں“ کو ہلاک اور بیس لاکھ ”دہشت گردوں“ کو بے گھر کر چکی ہے۔میں نے اپنے گزشتہ ہفتہ کے کالم میں لکھا تھاکہ پاکستانی حکومت اور فوج امریکی خواہش کے مطابق تیل کے پائپ لائن TAPI کی کھدائی کے کام کے ٹھیکی پر معمور کر دی گئی ہے۔یہ کئی بلین ڈالر کا ٹھیکہ ہے۔ اس کے ساتھ اہم کام یہ ہے کہ افغانستان کے لیے امریکی اور ناٹو افواج کی سپلائی لائن کو بالکل صاف کر دیا جائے۔ ملک کا صدرزرداری اس پروجیکٹ کا منیجر اور گیلانی، کیانی اور رحمن ملک اس کے سپروائرز ہیں ۔ مزدوری طے نہیں ہے تاہم ہر روز کی کاروائی پر مول تول اور بھاو تاوجاری ہے۔”اتنے بلین سے کام نہیں چلے گا، ہمیں اتنے بلین چاہیں“ وغیرہ وغیرہ۔علاوہ ازیں بڑے پیمانے پر انسانی مسائل کھڑی کر کے دنیا بھر کی امداد کا رخ پاکستانی افواج اور حکومت کی طرف کر دینے سے بھی امریکا کو کرایہ کم ادا کرنا پڑے گا۔ جن لوگوں کوکشمیر میں زلزلہ سے متاثرین کی تمام امداد افواج پاکستان اور حکومت پاکستان کے ذریعہ کرانے کے انجام کو دیکھا ہے ، انھیں معلوم ہو چکا ہو گا کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔ساری دنیا سے اور خود بیرون ملک آباد پاکستانیوں سے کشمیریوں کے لیے جو امداد آئی تھی اس سے دو نئے شہر آباد ہو سکتے تھے۔ لیکن زلزلہ کے متاثرین آج بھی کیمپوں میں رہ رہے ہیں، اور چند ہزار روپوںکی امداد کے لیے بھی حکومت کے در پر چکر لگا کر تھک چکے ہیں۔ان کیمپوں میں امدادی کام کرنے والوں میں جماعت الدعوة اور الخدمت سب سے سرگرم تھی۔ الدعوة پر ممبئی میں ہندو انتہا پسندوں کی دہشت گرد کاروائی کے بعد پابندی لگا دی گئی اس کی اعلیٰ قیادت کو قید میں ڈال دیا گیا۔اور الخدمت کی بانی جماعت اسلامی کا بڑے پیمانے پر میڈیا ٹرائل شروع ہو چکا ہے۔پاکستانی حکومت، اس کی سول اور ملٹری بیروکریسی کے منہ کو خون لگ چکا ہے اور اس کا پیٹ ڈائناسور بن چکا ہے۔وہ انسانوں کے گوشت کی خوراک اور خون کے ڈرنک کی عادی بن رہی ہے۔ پاکستان کے کسی حصّہ میں پاکستان فوج کی بڑی کاروائی یا ایڈونچر کا مطلب اس علاقہ کو پاکستان سے علیحدہ کرنا ہے۔1948 ءپاکستانی فوج کا ایڈونچر سری نگر کشمیر تھا۔سرینگر پاکستان سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا۔1970 ءمیں یہ ایڈونچر مشرقی پاکستان میںفوج کشی کی شکل میں ہوا اور راولپنڈی جی ایچ کیو میں اس حصّے کی علیحدگی کا فیصلہ امریکی خواہش اور ایماءکے مطابق ہوا۔ نئے بنگلہ دیش میں آج بھی محصورین پاکستانیوں کے کیمپ ”آباد“ہیں۔ضیاءالحق نے سیاچن میں ایڈونچر کر کے سیاچن کو بھارت کے حوالے کیا اور پاکستان کو یہ” مژدہ “ سنا یا کہ” ہم نے وہ علاقہ چھوڑا ہی، جہاں گھاس بھی نہیں اگتی۔“ جنرل پرویز مشرف نے کارگل فتح کر کے بھارتی فتوحات میں مزید اضافہ کیا ۔ بلوچستان پر مستقل فوج کشی، سیاسی قتل اور حکومتی اور فوجی غنڈہ گردی کا مطلب امریکی خدمت اور مرضی کے مطابق بلوچستان کو پاکستان سے کاٹنا ہے اور سوات اور بونیر میں بڑے پیمانے پر فوج کشی کر کے ایک نئے پختونستان کے لیے راستہ ہموار کر دیا گیا ہے۔شمالی علاقہ جات کے لوگوں نے مسلم پاکستان کے ساتھ رہنے کا ایک انتظام کیا تھا۔اس کا مطلب آج کے پاکستانی حکمراں انھیں محکوم بنانی، اپنے سیکولر، لبرل سیاسی نظریات اور لائف اسٹائل ان پر تھوپنے پر محمول کر تے ہیں۔جن لوگوںکو تاریخ کی کسی سرکش قوت نے غلام نہیں بنایا ہے انھیںپاکستان، امریکی اور ناٹو کے کرایہ پر غلام بنانا چاہتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہی؟ یہ سبھی کو معلوم ہے کہ ایسا ہو نہیں سکتا اور بموں کے گولوں اور عمارات اور گھروں اور انسانی لاشوں کے ملبے سے ایک آزاد پختونستان ہی جنم لے سکتا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے کبھی پورے پاکستان پر” اسلامی امارت“ قائم کرنے کا اور ان کی کسی قیادت نے پورے پاکستان کی” امیر المومنین “بننے کی خواہش کا کبھی اظہار نہیں کیا ہے۔ان کا حدف اور ان کا مقصد اپنے علاقوں میں مقامی سطح پر اسلامی شریعت کا محدود قیام ہی،اور ان کا ویژن نہ قومی ہے اور نہ عالمی۔ چناچہ جارح اور قاتل پاکستانی حکومت اور فوج کے خلاف عوامی ردعمل میں وہ باآسانی علیحدگی کی طرف جا سکتے ہیں، اور جائیں گے۔وہ اسلام کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ ہوئے تھے اور اب اسلام کے لیے ہی پاکستان سے علیحدہ ہونا اپنا فرض بنا لیں گے۔پورے پاکستان میں جس قوم میں سب سے زیادہ اور حقیقی عصبیت پائی جاتی ہے وہ پٹھان ہیں۔ اتنے بڑے پیمانوں پر جانوں کا ضیاع ، اور اپنے گھروں سے بے گھری اور بیدری کی ٹھوکروں کو پٹھان برداشت نہیں کر پائیں گے ۔ اور بدلہ لینے کی قدرتی صدیوں پرانی روایت کو پوری طاقت سے بروئے کار لائیں گے ۔پٹھان فوج پٹھانوں کے خلاف زیادہ عرصے تک کاروائی نہیں کر سکے گی اور بغاوت ہو کر رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ امریکی قیادت کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلیٰ فوجی اور سیاسی قیادت اس کاروائی کے قدرتی نتائج سے پوری طرح با خبر ہے اورا س کے لیے تیار ہے۔جماعت اسلامی کے سوا تمام بڑی سیاسی اور دینی جماعتوں کی خاموشی یا حکومت کی حمایت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ جماعتیں اس کاروائی کے حتمی نتائج سے واقف نہیں ہیں۔اصل معاملہ یہ ہے کہ اس امریکی ٹھیکے میں سب کے لیے حصّہ طے ہو چکا ہے اور سب کا اپنا اپنا کردار بھی طے ہو چکا ہے۔ کچھ کا کردار جارحانہ ہے ، جیسے کہ ایم کیو ایم ۔، اور کچھ کا کردار خاموش ہے جیسے کہ نواز لیگ۔ دراصل نواز شریف امریکا کے وہ مہرے ہیں جو موجودہ سیٹ اپ کی ناکامی کی صورت میں اوپر آئیں گے۔ یا بلوچستان اور پختونستان بعد کے پنجاب اور سندھ پر مشتمل نئے پاکستان کی وزارت عظمٰی ان کو دی جائے گی یعنی نئے پاکستان کے وہ نئے بھٹو ہوں گے جو بلی کے تھیلے سے باہر آنے کا مژدہ قوم کو اس وقت سنائیں گے جب بلی راستہ کاٹ کر نکل چکی ہوگی ۔رہ گئی جمعیت علماءاسلام کی ”دینی سیاسی“ قیادت ،تو وہ پہلے ہی پٹرول اور ڈیزل کے کمیشن کے کاروبار میں میں عالمی شہرت رکھتی ہے ۔عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست کی بنیاد ہی ”پختونستان“ ہے۔ وہ اس میں آگے بڑھ کر اپنا حصّہ لینے کی کوشش کریں گے۔لیکن نئے پختونستان میں ان کا کوئی مقام نہیں ہوگا اور ان کی سیاست پاکستان کے ساتھ ہی چل سکتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو فی الوقت تین حصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبوں پر اب بہت تیزی سے عمل شروع ہو چکا ہے اور اس مرحلہ پر مالاکنڈ ڈویژن میں اتنے بڑے پیمانے پر انسانی المیہ پیدا کرنا اور افواج پاکستان اور صدر پاکستان کی طرف سے اس کے دائرہ کو مزید بڑھانے کے اعلان کا مطلب یہ ہے کہ اسے پوائنٹ آف نو ریٹرن تک لے آیا جائے گا۔ آئندہ پاکستان میں جو بھی جمہوری یا فوجی ڈرامے ہوں گے وہ اس خطّہ کے لیے سی آئی اے کے بنے نئے نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے ہی رچائے جائیں گے۔ پاکستان کی مخلص دینی جماعتیں ، علماءحق، اسلام پسند اور محب وطن لوگ ساری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہیں۔انھیں پاکستان کو بچانے کے لیے نئی اسٹریٹجی پر نئے سرے سے غور کرنا ہوگا۔انھیں ” جعلی جمہوریت “ اور ”جرنیلی آمریت“ کے ڈبوں سے اوپر اٹھ کر (Out of the box) سوچنا ہو گا۔پاکستان لاکھوں کروڑوںمسلمانوں کی کوسش ، خواہش اور امنگوں کا حاصل ہے۔ پاکستان کاسقوط تاریخ اسلامی کا سب سے بڑا اور اندوہناک حادثہ ہو گا۔آئندہ پاکستان کو بچانے کی تحریک صرف صوبہ سرحداور بلوچستان میں نہیں چلائی جا سکے گی۔ اس کا مرکز پنجاب،سندھ اور اسلام آبادہونا چاہئے اور اس کے لیے دنیا بھر میں پھیلے تمام پاکستانی اپنی ذہنی اور فکری استطاعت لگائیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے اورانسانی مصائب کے ذمہ دار حکمراں اور جرنیلوں کو سزا دیے بغیر انھیں پیچھے دھکیلے بغیر، اور پاکستان کے دستور پر لفظ بہ لفظ اور اس پر اس کی اصل روح کے ساتھ عمل درآمد کیے بغیر یہ کام نہیں ہو سکے گا۔
اے رب ہمارے گناہوں کو نہ دیکھ، مغفرت فرما، اپنی رحمت سے ہم کو محروم نہ رکھ آمیں
ہمارے حکمران بھی تو مردے اور کفن بیچنے والے ہیں، مشرف ڈالروں کے عوض لاشیں بیچنے والا تھا اسی طرح زرداری، رحمان ملک، یوسف گیلانی سب اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں اور جو کوئی بھی اس ظلم کے خلاف نعرہ بلند نہیں کرتا وہ کفن اور قبریں بیچنے والوں سے زیاد مختلف نہیں
یہ بے ضمیری نہیں تو اور کیا ہے؟
همارا معاشرھ کتنا بگڑ چکا ہے ؟
اس کا کیا علاج هو سکتا ہے ؟
کیا یه لوگ واعظ سے سنور سکتے هیں ؟
کیا کسی دن صبح جب هماری ابک کھلے کی تو سب لوگ اپنے اپنے فرائض کو پورا کر رهے هں گے ؟
نهیں اب جی اب آپ کو قران پر<ھنا هو گا اور دیکھنا هو گا که دنیا بنانے والے نے تاریخ میں ایسی عادات کی مالک اقوام کے ساتھ کیا کیا ؟
اور وهیں اللّه جی نےیه فرمایا هے که
پھر میں نئے لوگ لے اؤں گا جو تم جیسےنهں هوں ـ
وه آ رهے هیں
عنقریب
باقی جی احمد صاحب نے خوب لکھا ہو
مگر سب پاکستانی لوگوں کی طرح صرف مرض کی نشاندھی کی هے
مرض کے اثرات کیا هوں گے ؟
اج اس بات کو لکھنے کی ضرورت بھی هے
لیکن مرض کی نشاندھی کرنے والے بھی غنیمت هیںکه پاک میڈیا کے گمراھ کیےلوکوں کو کچھ تو ائینه دیکھا جا سکتا ہے ناںجی
پاک فوج ، پاک میڈیا میں شکست کے چند منٹ پہلے تک ” بری ” طرح جیت رهی هوتی هے
اور دو نمبر کے دانشوروں کے بارے میں بھی لکھنا چاہئے تھا
جو حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور بتاتے کچھ اور ہیں
اگر تو حقیقت وہی ہے جو احمد صاحب نے لکھی ہے تو
پھر لعنت ہے فوج پر، حکومت پر، مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر اور سب سے بڑھ کر ہم سب پر ۔۔۔۔
پیرس میں بادشاہ کے محل کا محاصرہ غریب کسانوں کے کیا تو شور سن کر ملکہ نے اپنی خادمہ سے پوچھا ۔
یہ شور کیسا۔؟
ملازمہ نے جواب دیا ۔ کسان اور غریب غرباء ہیں۔
ملکہ نے ستفسار کیا۔
کیا چاھتے ہیں۔؟
ملازمہ نے کہا۔ روٹی مانگتے ہیں۔
ملکہ گویا ہوئی ۔ اگر ان کے پاس روٹی نہیں تو کیک کھا لیں۔
اسی طرح کا واقعہ پاکستان کے ایک شہشنشاہ مشرف کا بھی ہے کہ شہنشاہ نے ٹماٹر بھارت بجھوا دئیے اور غریب غرباء کو چٹنی اور بچوں کا پیٹ پالنے کو بھی ٹماٹر سونے کے بھاۃ خریدنے پہ مجبور کر دیا گیا ۔ تو شہنشاہ مژرف نے کہا تھا ۔ کیا ہے اگر ٹماٹر نہیں تو کعئی دوسری سبزی کھا لیں ۔
ان سب کا ایک آسان سا علاج ہے کہ چھ چھ بندے کھڑے کر کے توپ کا ایک ایک گولہ۔
باقی سب یا تو پاکستان سے رفو چکر ہوجائیں گے۔ یا توبہ کر لیں گے۔ ہر صورت میں قوم کو افاقہ ہوگا۔
ہنگامی حالات میں ۔ علاج بھی ھنگامی ہوتا ہے۔
جو لوگ ہماری تجویز کو انتہاء پسندی اور انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی سمجھ رہے ہیں۔ ان سے عرض ہے کہ ذرا سوچیں۔ جب پیرس میں بپھرے عوام نے اگلے دن بادشاہ اور ملکہ کی گردنیں عین چوک میں کاٹ ڈالیں تو اس وقت عوام کے ذہنوں میں دور دور تک نام نہاد انسانی حقوق کے خواب خیال تک نہیں تھے۔ اور کچھ ایسی ہی صورت روس کے زاروں کے ساتھ انیس سو سترہ کے اشتراکی انقالب کے وقت پیش آئی۔ اور بھی بہت یی مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ایسے وقت اگر اپنے حقوق کے لئیے اٹھے ہوئے بپھرے عوام کو انتاء پسندی یا انسانی حقوق کا درس دیا جاتا تو وہ صاحب درس کو بھی چیر پھاڑ کر رکھ دیتے۔
پاکستانی معاشرہ محض مفاد پرست حکومتوں ۔ غدار سیاستدانوں اور بد دیانت انتظامیہ کی وجہ سے بو چھوڑ چکا ہے اور اس سے سڑانڈ اٹھنے لگی ہے۔ اور اگر اس نام نہاد مرداخور اشرافیہ نے آنکھیں نہ کھولیں اور غریبوں کا خون چوسنا نہ چھوڑا ۔ اور لوگوں کے غضب شدہ حقوق بحال نہ کئیے۔ تو وہ قیامت اٹھے گی ۔ جسکا نقصان ذیادہ اور فائدہ کم ہوگا۔
اس سے پہلے کہ وہ وقت آئے اس کا آسان حل یہ بھی ہے جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں۔
ان سب کا ایک آسان سا علاج ہے کہ چھ چھ بندے کھڑے کر کے توپ کا ایک ایک گولہ۔
باقی سب یا تو پاکستان سے رفو چکر ہوجائیں گے۔ یا توبہ کر لیں گے۔ ہر صورت میں قوم کو افاقہ ہوگا۔
ہنگامی حالات میں ۔ علاج بھی ھنگامی ہوتا ہے۔
کچھ تو حکومت کو کرنا ہوگا کہ عام آدمی اپنے مسائل حل ہوتا دیکھے ۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ آپ صبح شام پی ٹی وی سے جمہوریت کا درس دیں۔ طالبان کو ظالمان کا نام دیکر انہیں وحشی اور درندے ثابت کرنے پہ اپنی ساری توانائیاں استعمال کردیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فوائد گنوائیں۔ اور ساتھ ساتھ عوام کا خون چوسیں۔ ان کے بچوں کے منہ کے نوالے چھن رہے ہوں اور آپ امریکہ کی یاریوں کی طولانی قصے بیان کریں۔
ایک وزیر کا بیان آتا ہے ۔ بجلی کا شاٹ فال اس دسمبر تک ختم ہو کر لوڈشیڈینگ ختم ہوجائے گی۔ دسے وزیر بہادر کا بیاں آتا ہے کہ جاری منصوبوں کے تھت یہ ناممکن ہے کہ کہ دوہزار گیارہ سے پہلے لوڈ شیڈنگ ختم ہو ۔
حکومت اپنا اعتماد کھو چکی ہے۔ جھوٹ اور پروپگنڈے کے زور پہ کچھ لوگوں کو بے وقوف تو بنایا جاسکتا ہے کہ ماجھے کے گھر کی دال روٹی۔ اور رشیداں کے گھر کے چولھے کو گرم نہیں کیا جسکتا۔ کیونکہ پاکستان کے نوے فیصد عوام کا مسئلہ ماجھے اور رشیداں کا مسئلہ ہے ۔
اگر آپ ایک فریق کو برا گردان کے سمجھتے ہیں کہ آپ اپنی ذمہ داریوں سے مبرا ہو چکے تو یہ حکومت کی بھول ہے۔ ہمار ے عوام کی اکثریت کا مسئلہ امریکہ کی نام نہاد دیشت گردی کے خلاف جنگ نہیں بلکہ دال روٹی۔ صاف پانی۔ عزت نفس۔ اچھی تعلیم۔ وغیرہ ہیں۔
اور یہ مسائل حل کرنا حکموتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ مسائل ہماری حکومتوں کی نااہلی کی پیداوار ہیں۔ طالبان کی پیداوار نہیں ۔ بلکہ طالبان ایک ردِ عمل ہے ان سارے مسائل کا ۔ جس سے سادہ لوح لوگ بھی تحریک لیتے ہیں۔
عوام کو روٹی چاھئیے۔ کیک نہیں۔
ہمارا بس ہی تو نہیں “چلتا“ 🙁
حل بتانے والے ہم کون ہوتے ہیں؟ جب اللہ اور اسکے رسول نے صاف صاف حل بتادیا اور ہزاروں صحابہ اور بعد کے لوگوں سے عمل بھی کرکے دکھلوادیا تو اب اور کیا تلاش کرتے ہو؟
اے ایمان والو ایمان لاؤ ( القراں)۔
جعفر صاحب سے بعد میں بات کریں گے
Leave A Reply