ابھي چند دن قبل اپنے ايک عزيز سے فون پر بات ہوئي تو انہوں ايک عجيب قسم کے تاجر کا ذکر کيا۔ ہم نے لوگوں کو سود پر لين دين کرتے ديکھا ہے مگر سود خوري کا متبادل اس طرح کا گھناؤنا کاروبار کرتے پہلي دفعہ سنا ہے۔

عزيز فرمانے لگے کہ ايک صاحب لاہور ميں لوگوں کو ادھار يعني قرضہ دے رہے ہيں مگر سود پر نہيں۔ وہ جب قرضہ ديتے ہيں تو قرضدار کو سونے کا بھاؤ بتاتے ہيں اور کہتے ہيں کہ اس وقت وہ اس کو جتنا قرض دے رہے ہيں اس کا اتنا سونا خريدا جاسکتا ہے۔ اور قرضدار کو اس شرط پر قرض ديتے ہيں کہ وہ قرض کي واپسي پر اتني ہي رقم دے گا جس کا اتنا ہي سونا ملے گا جتنا قرض ديتے وقت مل سکتا تھا۔

ہمارے خيال ميں تو يہ سراسر سودي کاروبار ہے سواۓ اس کے کہ سونے کي قيمت جہاں بڑھ سکتي ہے وہاں کم بھي ہوسکتي ہے۔ اسلۓ اسے آپ نفع نقصان کا کاروبار کہ کر سودي کاروبار سے بچنے کا بہانہ ڈھونڈ سکتے ہيں۔ ليکن بلا سود کاروبار کي ايک اسلامي شرط يہ ہے کہ کاروبار ميں آپ کے سامان کي جنس ايک نہيں ہوني چاہۓ۔ يعني اگر آپ روپے دے رہے ہيں تو بدلے ميں کوئي اور چيز خريديں نہ کہ رقم کے بدلے رقم کا کاروبار کريں۔

يورپ کے کچھ ممالک ميں بھي اسي طرح کا کاروباراسلامي مورٹگيج کے نام پر ہورہا ہے۔ اس ميں گھر خريدنے والا جتنا ايڈوانس ديتا ہے اس کو گھر کا انتا حصہ بيچ ديا جاتا ہے اور باقي گھر کے حصے کا وہ کرايہ ادا کرتا رہتا ہے اور ساتھ ساتھ زيادہ رقم ادا کرکے گھر کي ملکيت ميں اضافہ کرتا رہتا ہے اور کرايہ تب تک ادا کرتا رہتا ہے جب تک سارے گھر کي قيمت ادا نہيں کرديتا۔ مزے کي بات يہ ہے کہ اس گھر کا کرايہ اتنا ہي ہوتا ہے جتنا اس وقت مورٹگيج کا ريٹ۔ پھر اسلامي مورٹگيج والے صرف نفع ميں شامل ہوتے ہيں نقصان ميں نہيں۔

اب آپ فيصلہ کريں کہ ہم نے اسلامي قوانين سے بچنے کيلۓ جو طريقے اپناۓ ہوۓ ہيں کيا يہ ہماري نجات کا ذريعہ بنيں گے کہ نہيں۔