حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ نے پیغمبری کیساتھ ساتھ بادشاہت بھی دے رکھی تھی اور وہ اپنی حکومت کے چیف جسٹس بھی تھے۔ ایک دن دو آدمی اچانک ان کے سامنے حاضر ہوئے اور ان میں سے ایک نے اپنی بپتا سنانا شروع کر دی۔ کہنے لگا کہ یہ میرا بڑا بھائی ہے جس کے پاس ۹۹ بھیڑیں ہیں اور اس نے میری اکلوتی بھیڑ بھی ہڑپ کر لی ہے۔ آپ اسے کہیں کہ وہ میری بھیڑ واپس کر دے۔ حضرت داؤد نے ایک دم فیصلہ اس کے حق میں دے دیا۔

اللہ تعالی نے حضرت داؤد سے کہا “تم نے غلط فیصلہ دیا ہے، وہ دو آدمی فرشتے تھے اور ہم نے آزمانے کیلیے انہیں تمہارے پاس بھیجا تھا مگر تم اس امتحان میں فیل ہو گئے۔ تمہیں چاہیے تھا کہ پہلے دونوں فریقین کی بات سنتے اور اس کے بعد فیصلہ دیتے”۔ حضرت داؤد نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے اللہ تعالی سے معافی مانگ لی۔

ایک مرض جس کی صدیوں پہلے سے تشخیص ہو چکی ہے اور اللہ تعالی نے علاج بھی بتا رکھا ہے مگر ہم ہیں کہ اس مرض میں مبتلا چلے آ رہے ہیں۔ اس وقت ہم لوگوں میں لڑائی کی وجہ یہی یکطرفہ فیصلے ہیں۔ ہم اپنے چاہنے والوں کی روداد سن کر یک دم ان کے حق میں فیصہ دے دیتے ہیں اور متاثرہ فریق کو صفائی کا موقع بھی نہیں دیتے۔ یہی برائی ہماری بہت ساری خرابیوں اور لڑائی جھگڑوں کی جڑ ہے۔

کہتے ہیں کہ جج کیلیے ضروری ہے وہ فیصلہ کرتے وقت نہ غصے میں ہو، نہ بھوکا ہو اور نہ ہی کسی دباؤ کا شکار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عدالتیں انصاف کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ اگر جج پی سی او کے حلف زدہ ہوں تو پھر وہ دباؤ میں آ کر فیصلے تو کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جنرل مشرف کے دور میں جو فیصلے ہوئے وہ ناانصافی پر مبنی تھے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ پی سی او ججوں کی عدالتوں میں ہونے والے فیصلوں کے مقدمات کو دوبارہ کھولیں اور ان پر نظرثانی کریں۔ ان میں کئی مقدمات ایسے بھی ہوں گے جن میں چیف صاحب نے بذات خود بطور پی سی او جج فیصلے کیے ہوں گے۔ ان فیصلوں میں سب سے بڑا فیصلہ جنرل مشرف کے غیرقانونی اقدامات کی توصیف اور منظوری ہے۔ اگر یہ نیک کام چیف صاحب کر سکیں تو رہتی دنیا تک ان کا نام زندہ رہے گا۔